رازِ حیات
جاپان کے لوگ اپنے آپ کو سورج کی اولاد سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی نسل دوسری نسلوں سے برتر ہے۔ انہیں حق ہے کہ وہ دوسری قوموں پر بالا تری حاصل کریں۔ اس ذہن نے ان کے یہاں اس نعرے کی صورت اختیار کی کہ مشرقی ایشیا جاپان کے لیے:
East Asia for japan
جاپانی قوم کا یہ ذہن اس کی قدیم تاریخ میں اس کو متشدد بنائے ہوئے تھا۔ خاص طور پر 1937ء س لے کر1945ء تک وہ اپنے اس خود ساختہ حق کے لیے دوسری قوموں سے لڑتے رہے۔ ابتدائی طور پر اس جنگ میںجاپان کو کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مثلاً1942ء میں انہوں نے منیلا پر قبضہ کرلیا اسی طرح سنگاپور، ندر لینڈ اور رنگون ان کے قبضہ میں آگیا۔ مگر آخر کار انہیں زبردست شکست ہوئی۔ مزید پانے کی کوشش میں انہوں نے ملے ہوئے کو بھی کھو دیا۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے حریف تھے۔ جاپان کے پاس سادہ بم تھے۔ امریکہ نے اس کے مقابلہ میں جوہری بم تیار کر لیا۔ اب دونوں کے درمیان طاقت کا توازن ٹوٹ گیا۔ جولائی1945ء میں امریکہ نے جاپان کے اوپر دو ایٹم بم گرائے۔ جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہوگئی۔ امریکہ کو جیت ہوئی اور جاپان کے لیے اس کے سوا کوئی صورت باقی نہ رہی کہ وہ اپنے لیے اس حیثیت کو قبول کر لے جس کو ایک مبصر نے ذلت آمیز ہتھیار ڈالنے(humiliating surrender) سے تعبیر کیا ہے(ٹائم13 اپریل1987، صفحہ15)۔
اب جاپان نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا۔14 اگست 1945ء کو شان جاپان ہیرو ہیٹونے قوم کے نام ایک ریڈیائی پیغام نشر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم نے طے کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے عظیم امن کی بنیاد رکھیں اور اس مقصد کے لیے ناقابل برداشت کو برداشت کریں اور اس چیز کو سہیں جو سہنے کے قابل نہیں۔
We have resolved to pave the way for a grand peace for all the generations to come by enduring the unendurable and suffering what is unsufferable.
اس فیصلہ کے مطابق جاپان نے 2 ستمبر1945ء کو اپنی شکست کے کاغذات پر دستخط کر دیئے۔ اس نے جاپان کے اوپر امریکہ کی بالادستی تسلیم کر لی۔
جاپان کے لیے یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ جاپانی قوم اب تک ذاتی برتری کے احساس پر کھڑی ہوئی تھی۔ اب اس کو حقیقت پسندی کے احساس پر کھڑا ہونا تھا۔ اب تک وہ بیرونی مخالف جذبات(Anti-foreign sentiments) میں جی رہی تھی اب اس کو خود احتسابی کے جذبات میں اپنے لیے زندگی کا راز دریافت کرنا تھا۔ اس وقت جاپان کی صورت حال یہ تھی کہ اس کی صنعتیں برباد ہو چکی تھیں۔’’جنگی مجرم‘‘ جنرل میکارتھر کو معاہدہ کے خلاف جاپان کے اوپر مسلط کر دیا گیا تھا۔ کوریا، برما، سنگاپور، تائیوان اور دوسرے بیرونی مقبوضات کے علاوہ خود اپنے ملک کے کئی علاقے اس نے کھو دیے تھے۔ مثلاً جزیرہ کرافوٹو، اوکی ناوا وغیرہ۔1946ء میں’’میکارتھر کانسٹی ٹیوشن‘‘ جاپان میں نافذ کیا گیا جو’’بیرونی طاقت کی طرف سے ایک مفتوح قوم کو مکمل طور پر اپنے قبضہ میں‘‘ رکھنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔
یہ سب چیزیں بلاشبہ ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کے ہم معنی تھیں۔ چنانچہ جاپان کے بہت سے لوگ اس کو برداشت نہ کر سکے اور اس غم میں انہوں نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا(1984) کے مقالہ نگار نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ فوجی انتہا پسندوں نے اس بات کی کوشش کی کہ قوم کے نام شاہ جاپان کے ریڈیائی پیغام کو نشر نہ ہونے دیں، اور جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو متعدد قوم پرستوں اور فوجی افسروں نے بے عزتی کے احساس کے تحت خودکشی کرلی:
There were a number of suicides among the military officers and nationalists who felt themselves dishonoured. (10/86)
جاپان نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیارکرتے ہوئے اپنے لیے نمبر2 کی حیثیت کو قبول کر لیا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے دوسری حیثیت پر راضی ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ طاقتور فریق سے ٹکرائو نہ کرتے ہوئے اپنے لیے تعمیرنو کا وقفہ حاصل کرنا ہے۔ اس پالیسی کے تحت جاپان نے یہ کیا کہ اس نے سیاسی اور معاشی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی کو تسلیم کر لیا اور اپنی تمام توجہات سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں موڑ دیں۔ یہ عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ تیس سال میں تاریخ بدل گئی۔ فوجی اعتبار سے زیردست جاپان نے اقتصادی اعتبار سے بالادست جاپان کی حیثیت حاصل کر لی۔ جاپان نے الیکٹرانکس اور دوسرے شعبوں میں اتنی اعلیٰ درجہ کی مصنوعات تیار کیں کہ خود امریکہ کے لوگ اپنے ملک کی چیزیں چھوڑ کر جاپان کی چیزیں خریدنے لگے۔ کیوں کہ وہ کوالٹی میں امریکہ سے بہتر تھیں اور قیمت میں امریکہ سے کم۔ اس صورت حال نے امریکی مدبرین کو سخت پریشان کر دیا ہے۔ امریکہ کے ایک سیاسی مدبر مسٹر پیٹی ولسن(Pete Wilson) نے کہاکہ جاپان کے الیکٹرانک سامان ٹوکیو کے سوا ہر ایک کو برباد کر رہے ہیں:
The japanese semiconductor Godzilla is now destroying everything but Tokyo.
دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان امریکہ کا مقروض ہوگیا تھا۔ اب خود امریکہ جاپان کا مقروض بننے لگا۔1986ء میں امریکہ کا جو سامان جاپان میں آیا ان کی قیمت26 بلین ڈالر تھی۔ اس کے مقابلے میں جاپان کا سامان جو امریکہ گیا ان کی قیمت85 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح امریکہ اور جاپان کے درمیان تجارتی توازن ٹوٹ گیا۔1986ء میں امریکہ کے مقابلہ میں جاپان کا ٹریڈ سرپلس85 بلین ڈالر سے زیادہ تک پہنچ گیا۔ امریکہ آج دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور جاپان دنیا کا سب سے بڑا مہاجن ملک( ٹائم 13 اپریل،27 اپریل1987)۔
اس صورت حال پر آج کل کثرت سے کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے جاپان نمبر ایک(JAPAN-Number One) ۔یہ کتاب اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بنی ہوئی ہے۔1945ء میں جاپان نے امریکہ کے مقابلہ میں نمبر2 کی حیثیت منظور کر لی تھی۔40 سال بعد خود امریکہ کو اعتراف کرنا پڑا کہ جاپان دوبارہ نمبر ایک کا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
جاپانیوں نے اپنے ہاتھ سے ’’جاپان نمبر2‘‘ کی کتاب لکھی۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ دوسرے لوگ ان کے بارہ میں ایسی کتاب لکھیں جس کا نام’’جاپان نمبر ایک‘‘ ہو۔ یہی موجودہ دنیا کا قانون ہے۔ یہاں جو لوگ ہار مان لیں وہی جیتتے ہیں۔ یہاں جو لوگ پیچھے ہٹنے پر راضی ہو جائیں۔ وہی دوبارہ اگلی صف میں جگہ پاتے ہیں۔ اس راز کو چودہ سو سال پہلے مسلمانوں نے’’صلح حدیبیہ‘‘ کی صورت میں دریافت کیا تھا، موجودہ زمانہ میں جاپانیوں نے اسی کو اپنے حالات کے لحاظ سے اپنی زندگی میں دہرایا ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلہ اور مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک دوڑ رہا ہے، یہاں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔ یہی مقابلہ انسانی ترقیوں کا زینہ ہے۔ تاریخ کی تمام ترقیاں اسی مقابلہ آرائی کے بطن سے ظاہر ہوئی ہیں۔ امریکہ کی قیادتی کوشش کے ذریعہ انسان جوہری طاقت تک پہنچا۔ جاپان کے دوبارہ اٹھنے کی کوشش نے الیکٹرانک دور پیدا کر دیا، وغیرہ۔
اس دوڑ یا مقابلہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بار بار ایک قوم دوسری قوم سے پچھڑ جاتی ہے۔ بار بار کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور کوئی پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں پیچھے رہ جانے والا اگر شکایت اور احتجاج میں لگ جائے تو وہ صرف اپنا وقت ضائع کرے گا۔ اس کے لیے واحد راستہ صرف یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے کہ دوسرے اس سے آگے بڑھ گئے اور وہ دوسروں سے پیچھے رہ گیا۔
یہ اعتراف اس کی کوششوں کو صحیح رُخ پر لگا دے گا۔ وہ اس کو موقع دے گا کہ آگے بڑھنے والے سے بے فائدہ ٹکرائو کیے بغیر وہ اپنی تعمیر ثانی کا کام شروع کر دے۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ آئے جب کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے۔
اپنے پیچھے ہونے کا احساس آدمی کو دوبارہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والا شخص اگر اپنے پیچھے ہونے کا اقرار نہ کرے تو وہ ہمیشہ پیچھے ہی پڑا رہے گا، دوبارہ آگے بڑھنا اس کے لیے مقدر نہیں۔