درست مشورہ
وزیر اعظم نرسمہا رائو نے 46 ویں یوم آزادی کی تقریر میں ایک اہم بات کہی۔ اکثر اخباروں نے اسی کو اپنی سرخیوں میں نمایاں کیا ہے۔ ہندوستان ٹائمس (16 اگست 1992) نے اس تقریر کی جو رپورٹ چھاپی اس کی سرخی یہ تھی— وزیر اعظم کی اپیل کہ نزاعی امور کو تین سال کے لیے التوا میں ڈال دیں:
PM for three-year moratorium on contentious issues.
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے درمیان بہت سے اختلافات ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے کہ اختلافات ہوں۔ مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آزادی کے تقریباً آدھی صدی بعد بھی ہم گمبھیر مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے یکسوئی کی ضرورت ہے۔ ہم کو چاہیے کہ کم از کم اگلے تین سال کے لیے ہم اپنی نزاعی بحثوں کو طاق پر رکھ دیں اور اپنی ساری طاقت ملک کو ترقی کے راستہ پر اٹھانے میں لگا دیں۔
یہی اصول دنیا میں ترقی اور کامیابی کا واحد اصول ہے۔ موجودہ دنیا میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اور دوسرے شخص، اسی طرح ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا ہو۔ اس دنیا میں بے اختلاف زندگی ممکن نہیں۔
اب اگر ہر شخص اور ہر گروہ اپنی اختلافی باتوں کو لے کر دوسروں سے الجھ جائے تو ترقی کا سفر ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے درست طریقہ یہ ہے کہ اختلافی یا نزاعی باتوں کو اعراض کے خانہ میں ڈال دیاجائے اور اپنی ساری طاقت عملی تعمیر کے کام میں لگائی جائے۔ اگر بالفرض مستقل اعراض ممکن نہ ہو تو کم از کم کچھ مدت کے لیے تو اعراض کے اصول کو اختیار کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔
انسان بیک وقت دو محاذ پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا۔ اگر وہ نزاع میں الجھے گا تو تعمیری کام رک جائیں گے۔ اور اگر تعمیری کاموں میں مصروف ہو گا تو نزاع کے میدان کو خالی چھوڑنا پڑے گا۔ ایسی حالت میں عقل مندی کیا ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ نزاع کو ترک یا ملتوی کر کے اپنی تمام ممکن قوت کو تعمیر و ترقی کی راہ میں لگا دیا جائے۔