کم سمجھنا

زندگی نام ہے ناخوش گواریوں کو خوش گواری کے ساتھ قبول کرنے کا۔ تھیوڈور روز ویلٹ (Theodore Roosevelt) نے اسی بات کو ان الفاظ میں کہا کہ زندگی کا سامنا کرنے کا سب سے زیادہ ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جائے:

The poorest way to face life is to face it with a sneer.

اصل یہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی شخص اکیلا نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ بھی یہاں زندگی کا موقع پائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے منصوبہ کے تحت ہر ایک کو اس کا سامانِ حیات دے رہا ہے۔ کسی کو ایک چیز، کسی کو دوسری چیز اور کسی کو تیسری چیز۔ ایسی حالت میں آدمی اگر دوسروںکو حقیر یا کم سمجھ لے تو وہ حقیقت پسندانہ نظر سے محروم ہو جائے گا۔ وہ نہ اپنے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکے گا اور نہ دوسروں کے بارے میں۔

 تاریخ انسانی میں جو سب سے بڑا جرم کیا گیا ہے وہ عدم اعتراف ہے۔ تاریخ کے ہر دورمیں خدا کے نیک بندے حق کا پیغام لے کر اٹھے، انہوں نے لوگوں کو سچائی کی طرف بلایا۔ مگر ہمیشہ ایسا ہوا کہ ان کے مخاطبین کی اکثریت نے ان کو نظرانداز کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے ان سچے انسانوںکو حقیر سمجھ لیا، صرف اس لیے کہ ان کے آس پاس انہیں دنیا کی رونقیں نظر نہ آئیں، وہ ان کو تخت عظمت پر بیٹھے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک چھوٹے آدمی کے سامنے کیوں اپنے آپ کو جھکائیں۔

یہی معاملہ قومی رویہ کا بھی ہے۔ اگر ہم ایک قوم کو حقیر سمجھ لیں تو اس کے بارے میں ہمارا پورا رویہ غلط ہو کر رہ جائے گا۔ ہم اس قوم کی اچھائیوں کو بھی برائی کے روپ میں دیکھنے لگیں گے، ہم اس قوم کی طاقت کا غلط اندازہ کریں گے اور اس سے ایسے مواقع پر غیر ضروری طور پر لڑ جائیں گے جہاں بہترین عقل مندی یہ تھی کہ اس سے اعراض کیا جائے۔

دوسروں کو کم سمجھنا باعتبار نتیجہ خود اپنے آپ کو کم سمجھنا ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھنے کا آخری انجام صرف یہ ہے کہ آدمی خود دوسروں کی نظر میں حقیر ہو کر رہ جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom