مٹھاس کا اضافہ
ٹائمس آف انڈیا کے ضمیمہ(The Neighbourhood Star) بابت 18-24 مارچ 1989(صفحہ6) پر ایک سبق آموز واقعہ شائع ہوا ہے۔ ایران کے پارسی جب پہلی بار ہندوستان میں آئے تو وہ ہندوستان کے مغربی ساحل پر اترے۔ اس وقت یادو رانا گجرات کا راجہ تھا۔ پارسی جماعت کا پیشوا راجہ سے ملا۔ اور اس سے یہ درخواست کی کہ وہ ان لوگوں کو اپنی ریاست میں ٹھہرنے کی اجازت دے۔ راجہ نے اس کے جواب میں دودھ سے بھرا ہوا ایک گلاس پارسی پیشوا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری ریاست پہلے ہی سے آدمیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں مزید لوگوں کو ٹھہرانے کی گنجائش نہیں۔
پارسی پیشوا نے لفظوں میں اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے صرف یہ کیا کہ ایک چمچہ شکر لے کر دودھ میں ملایا اور گلاس کو راجہ کی طرف لوٹا دیا۔ یہ اشاراتی زبان میں اس بات کا اظہار تھا کہ ہم لوگ آپ کے دودھ پر قبضہ کرنے کے بجائے اس کو میٹھا بنائیں گے۔ ہم آپ کی ریاست کی زندگی میں شیرینی کا اضافہ کریں گے۔ اس کے بعد راجہ نے انہیں گجرات میں قیام کی اجازت دے دی۔
اس واقعہ پر اب ایک ہزار سال کی مدت گزر چکی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پارسیوں کے رہنما نے جو بات کہی تھی اس کو پارسی قوم نے پورا کر دکھایا۔ پارسی اس ملک میں مطالبہ اور احتجاج اور ایجی ٹیشن کا جھنڈا لے کر کھڑے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی خاموش محنت سے اس ملک کی ترقی میں اضافہ کیا۔ پارسیوں نے دوسروں سے زیادہ محنت کی۔ وہ تعلیم اور تجارت اور صنعت میں آگے بڑھے۔ انہوں نے ملک کی دولت اور ملک کی ترقی کو بڑھایا۔ اس ملک میں جہاں بہت سے لوگ لینے والے گروہ(taker group) کی حیثیت رکھتے ہیں، پارسیوں نے عمل کے ذریعہ اپنے لیے دینے والے گروہ(giver group) کا درجہ حاصل کیا ہے— یہی زندگی کا راز ہے۔ اس دنیا میں دینے والا پاتا ہے۔ یہاں اس آدمی کو باعزت جگہ ملتی ہے جو لوگوں کے ’’دودھ‘‘ میں اپنی طرف سے ’’مٹھاس‘‘ کا اضافہ کرے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے صرف کڑوا پن ہو، انہیں بھی اس دنیا میں وہی چیز ملتی ہے جو انہوں نے دوسروں کو دی ہے۔
اگر آپ کچھ پانا چاہتے ہیں تو دنیا میں ’’عطیہ کارڈ‘‘ لے کر نکلیے۔ اگر آپ’’مطالبہ کارڈ‘‘ لے کر نکلے تو یہاں آپ کو کچھ ملنے والا نہیں۔
24 اگست1988 کو مسٹر پی ڈی ملہوترا(پیدائش1935) سے ملاقات ہوئی۔ وہ ساہتیہ اکیڈمی(نئی دہلی) میں تقریباً30 سال سے پبلی کیشنز منیجر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک روز مجھے دفتر میں دیر ہوگئی۔ گھر جانے کے لیے باہر نکلا تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میں اپنے اسکوٹر پر چلتے ہوئے ایک سڑک پر پہنچا تو وہاں پولیس کے آدمی نے مجھے روک دیا۔ اس نے کہا کہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھائو۔
مسٹر ملہوترا نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ڈرائیونگ کارڈ کے ساتھ ایک اور کارڈ نکل آیا اس نے اپنے ہاتھ میں دونوں کارڈ لیتے ہوئے پوچھا کہ یہ دوسرا کارڈ کیا ہے۔ یہ دراصل آنکھ کے عطیہ کا کارڈ(Eye Donor Card) تھا۔ اس کارڈ پر آدمی کے دستخط کے ساتھ اس کی طرف سے یہ الفاظ درج ہوتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھیں قوم کو عطیہ دی ہیں۔ براہ کرم میری موت پر سب سے قریب کے آنکھ کے ہسپتال کو فوراً اطلاع کر دیں۔ اور میری خواہش کو پورا کرنے میں ان کی مدد کریں۔ شکریہ:
I have gifted eyes to the nation. Kindly inform the nearest Eye Bank immediately on my demise and help them to fulfil my desire. Thanks.
پولیس کا آدمی پہلے بہت رُکھائی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ مگر آنکھ کے عطیہ کا کارڈ دیکھتے ہی اس کا لہجہ بدل گیا۔ اس نے مزید جانچ کیے بغیر کہا کہ’’جایئے، جایئے۔‘‘
آنکھ کا عطیہ موجودہ زمانہ میں ایک شریفانہ فعل سمجھا جاتا ہے۔ ٹی وی پر اس کی اپیل ان جذباتی لفظوں میں آتی ہے:’’دنیا میں ایک ہی چیز ہے جو صرف آپ کسی کو دے سکتے ہیں۔‘‘ پولیس والے نے جب مسٹر ملہوترا کے پاس آنکھ کے عطیہ کا کارڈ دیکھا تو وہ سمجھا کہ یہ ایک شریف اور ہمدرد انسان ہیں۔ آنکھ کے عطیہ کا کارڈ مسٹر ملہوترا کے لیے اس بات کی پہچان بن گیا کہ وہ دوسروں کو دینے والے آدمی ہیں۔ اس چیز نے پولیس کے دل کو ان کے حق میں نرم کر دیا۔
اس دنیا میں دینے والے کو دیا جاتا ہے جو دوسروں کو دے وہ دوسروں سے پاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس وقت بھی پانے کا مستحق بن جاتا ہے جب کہ اس نے ابھی عملاً دیا نہ ہو، اس نے ابھی صرف دینے کا ارادہ کیا ہو۔