یقینی حل

الرسالہ اکتوبر1986 کو پڑھ کر ایک صاحب نے طویل خط(7اکتوبر1986) لکھا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے، آپ کا سفر نامہ نہ صرف معلوماتی ہوتا ہے بلکہ انداز بیان کے لحاظ سے بھی منفرد۔ اس بار بھی بمبئی کا سفر نامہ ایسا ہی ہے۔ اس سفر نامہ میں ہیرا لال ڈرائیور سے آپ کی ملاقات اور ایکسیڈنٹ سے بچے رہنے کی تدبیر کے بارے میں پوچھے گئے آپ کے سوال کا جواب پڑھنے کو ملا۔ اور مجھے اس سے ملتا جلتا ایک قصہ یاد آگیا۔

ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی 55 سالہ زندگی میں ایک بھی ایکسیڈنٹ نہیں کیا۔ ایک بار وہ محفوظ ڈرائیونگ پر لیکچر دیتے ہوئے بولا: مجھے یہ بتانے میں ایک منٹ کا وقت بھی نہیں لگے گا کہ محفوظ ڈرائیونگ کس طرح کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ ڈرائیونگ کے وقت بس یہ بات ذہن میں رکھیے کہ آپ کے سوا دنیا کا ہر ڈرائیور پاگل ہے۔(محی الدین محمد۔ حیدر آباد)

’پاگل‘ اس شخص کا نام ہے جو مرفوع القلم ہو۔ جس سے کسی قسم کی توقع نہ کی جا سکے۔ اور جہاں فریق ثانی کی طرف سے کوئی توقع نہ ہو وہاں دوطرفہ بنیاد پر سوچنا بالکل بے معنی ہے۔ ایسے مواقع پر آدمی ہمیشہ یک طرفہ سوچتا ہے۔ اور یک طرفہ طور پر مسئلہ کا حل تلاش کرتا ہے۔ چنانچہ ہر آدمی جانتا ہے کہ پاگل سے لڑنا نہیں ہے بلکہ پاگل سے بچنا ہے۔ پاگل کے مسئلہ کا حل اس سے اعراض کرنا ہے ، نہ کہ اس سے ٹکرائو کرنا۔ جو ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو پاگل سمجھ لے وہ دوسروں کی شکایت نہیں کرے گا۔ وہ ساری توجہ خود اپنی طرف لگا دے گا۔ وہ کہیں اپنی گاڑی کو روک لے گا۔ کہیں وہ پیچھے ہٹ جائے گا اور کنارے کی طرف سے اپنا راستہ نکالے گا۔ سڑک کا جو مسافر اس طرح یک طرفہ طور پر ذمہ داری اپنے آپ پر ڈال لے وہ کبھی سڑک کے حادثہ سے دو چار نہیں ہو سکتا۔

مذکورہ ڈرائیور نے ایک لفظ میں زندگی کا راز بتا دیا ہے۔ اس کی مراد دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ— آپ دوسروں سے کچھ امید نہ رکھیے۔ ساری ذمہ داری یک طرفہ طورپر خود قبول کیجیے اور اس کے بعد آپ یقینی طور پر ایکسیڈنٹ سے دو چار نہیں ہوں گے۔

 ڈرائیور نے جو بات سڑک پر حادثات سے بچنے کے بارے میں کہی۔ وہی وسیع تر زندگی میں حادثات سے بچنے کے بارے میں بھی درست ہے۔ آپ اپنی زندگی میں یقینی طور پر سماجی حادثات سے بچ سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آپ یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار بنا لیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں مسائل کا سب سے زیادہ یقینی حل وہی ہے جس پر مذکورہ ڈرائیور نے عمل کیا اور اپنی ڈرائیونگ کی طویل زندگی میں حادثات سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔

خالص طبی معنوں میں پاگل انسانوں کی تعداد ساری دنیا میں بمشکل ایک فیصد ہوگی۔ مگر دوسرے اعتبار سے دنیا کے 99 فیصد انسان امکانی طور پر پاگل ہیں۔ عام حالات میں بظاہر لوگ بالکل ٹھیک نظر آتے ہیں۔ مگر جب آدمی کے ذاتی مفاد کا معاملہ آ جائے، جب اس کی انا کو ٹھیس لگے۔ جب فریق ثانی کی کسی بات پر اس کے اندر غصہ بھڑک اٹھے۔ جب اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس سے اس کی اَن بَن ہوگئی ہو، تو اس وقت شریف آدمی بھی غیر شریف بن جاتا ہے۔ صحیح دماغ کا انسان بھی پاگل پن پر اتر آتا ہے۔

 ایک بار حیدر آباد سے محبوب نگر جاتے ہوئے خود میرے ساتھ ایک سبق آموز واقعہ پیش آیا۔ ہماری گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی کہ اچانک ایک بیل سڑک پر آگیا۔ جو صاحب کار کو چلا رہے تھے انہوں نے یہ نہیں کیا کہ بیل کے خلاف احتجاج کریں یا بدستور اپنی گاڑی دواڑتے رہیں۔ انہوں نے فوراً بریک لگا کرگاڑی کو روکا، اور ایک لمحہ رک کر اندازہ کیا کہ بیل کدھر جا رہا ہے۔ بیل نے جب سڑک کے آدھے سے زیادہ حصہ پار کر لیا، اور یہ واضح ہوگیا کہ وہ مشرق کی طرف جا رہا ہے تو انہوں نے اپنی گاڑی مغرب کی طرف گھمائی اور بیل کے کنارے کی طرف سے راستہ نکال کر آگے کے لیے روانہ ہوگئے— زندگی کے مسائل ہمیشہ یک طرفہ کارروائی کے ذریعے حل ہوتے ہیں۔ جو لوگ دوطرفہ بنیاد پر مسئلہ کو حل کرنا چاہیں، موجودہ دنیا میں ان کے لیے اس کے سوا کچھ اور مقدر نہیں کہ وہ بے فائدہ احتجاج کرتے رہیں اور اسی حال میں دنیا سے چلے جائیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom