قیمت ضروری
ائیر پورٹ پر خود کار اسکیل (ترازو) رکھا ہوا تھا۔ اس میں ایک روپیہ ڈالنے کے بعد ایک ٹکٹ نکلتا تھاجس پر آدمی کا وزن چھپا ہوا ہوتا تھا۔
ایک بچہ اسکیل کے تختہ پر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک روپیہ کا سکہ تھا۔ اس نے یہ سکہ اسکیل کے مخصوص خانہ میں ڈالا۔ اس کے بعد کھٹ کھٹ کی سی آواز ہوئی اور پھرایک چھپا ہوا کارڈ سامنے آ گیا۔ اس پر بچہ کا وزن واضح حرفوں میں لکھا ہوا تھا۔
بچہ کو یہ چیز ایک کھیل سی معلوم ہوئی۔ اس نے اپنے والدین سے مزید سکے مانگے۔ وہ اس فعل کو بار بار دہراتا رہا۔ ہر بار جب وہ اپنا سکہ مشین میں ڈالتا تو چند سیکنڈ کے بعد ایک خوب صورت کارڈ باہر آ جاتا۔ آخر والدین کے سب سکے ختم ہو گئے۔ اب ان کے پاس روپیہ کے بجائے پچاس پیسہ کا سکہ تھا۔ بچہ نے پچاس پیسہ کا سکہ لے کر اس کو مشین میں ڈالا۔ اس کے بعد کھٹ کھٹ کی آواز تو سنائی دی مگر حسب سابق وزن کا کارڈ باہر نہیں آیا۔ مشین کی طرف سے رسپانس نہ ملنے پر بچہ رونے لگا۔
کم عمر بچہ اس واقعہ کی توجیہہ نہ کر سکا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ رونے کا نہیں بلکہ سبق لینے کا تھا۔ مشین نے اپنی خاموش زبان میں ایک ایسا سبق دیا جو بچہ کے لیے اور اس کے سرپرستوں کے لیے عظیم اہمیت رکھتا تھا۔ یہ سبق کہ یہاں ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ ا گر تم نے وہ قیمت ادا نہیں کی تو تم کو مطلوبہ چیز بھی نہیں ملے گی ، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ تم نے اصل قیمت سے کم قیمت ادا کی ہو۔
یہی قانون موجودہ دنیا کے لیے ہے اور یہی قانون آخرت کے لیے بھی۔ دونوں دنیائوں میں آدمی کسی چیز کو اسی وقت پا سکتا ہے جب کہ وہ حسب اصول اس کی پوری قیمت اداکرے۔ جو شخص قیمت ادا کرنے پر راضی نہ ہو، اس کو یہ امید بھی نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی مطلوبہ چیز اس کے حصہ میں آ سکے گی۔
قیمت کا قانون ایک اٹل قانون ہے۔ نہ کسی کی خوش گمانیاں اس قانون کو بدل سکتیں ہیں اور نہ احتجاج اور شکایت کے ذریعہ اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔