برداشت کا مسئلہ
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ دی پانیر(24 جون1992) نے جل دیپ لاہری کے حوالے سے ایک رپورٹ چھاپی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک بہت بڑا سبق چھپا ہوا ہے۔ یہ سبق کہ بعض ناخوشگوار باتیں صرف اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کو برداشت کر لیا جائے۔ ایسی باتوں کو برداشت نہ کرنا صرف ان کی مقدار میں اضافہ کرنے کے ہم معنی ہے۔
یہ 22 جون1992 کی شام کا واقعہ ہے، راجدھانی ایکسپریس دہلی سے ہوڑہ کے لیے روانہ ہوئی۔ ٹرین آگے بڑھی تو اس کی ایک کوچ(C-4) کے مسافروں کو محسوس ہوا کہ ان کی کوچ کا اے سی یونٹ کام نہیں کر رہا ہے۔ کوچ کے 70 مسافر اس پر برہم ہوگئے۔ انہوں نے انجام پر زیادہ غور نہیں کیا۔ بس زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روکا اور اس کو پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا ٹرین واپس ہو کر پہلے اسٹیشن(تلک برج) پر کھڑی ہوگئی۔ ٹرین کے مسافر پلیٹ فارم پر اتر آئے۔ ان میں اور ٹرین کے ذمہ داروں میں تکرار شروع ہوگئی۔ مسافروں کی مانگ یہ تھی کہ مذکورہ ناقص کوچ کو نکال دیا جائے اور اس کی جگہ صحیح کوچ لگائی جائے دوسری طرف ریلوے کے ذمہ داروں کا کہنا تھا کہ اس وقت فوری طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ قریب میں اس کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
یہ بحث بے نتیجہ رہی۔ آخر کار ٹرین اپنی اسی ناقص کوچ کے ساتھ دوبارہ آگے کے لیے روانہ ہوئی۔ البتہ اس بحث و تکرار میں غیر ضروری طور پر راجدھانی ایکسپریس پانچ گھنٹہ کے لیے لیٹ ہوگئی۔ مزید یہ کہ اس کی وجہ سے تلک برج اور نئی دہلی اسٹیشن کے درمیان’’ریل جام‘‘ کا مسئلہ پیدا ہوگیا، اور پانچ آنے اور جانے والی ٹرینیں بھی کافی تاخیر سے روانہ ہو سکیں۔ راجدھانی ایکسپریس کے دو مسافر جن کو وقت پر کلکتہ پہنچنا تھا، وہ اس صورت حال سے اتنا پریشان ہوئے کہ ٹرین کو چھوڑ کر پالم ایئرپورٹ کی طرف بھاگے۔ تاکہ شام کا ہوائی جہاز پکڑ کر وقت پر اپنی منزل پر پہنچ سکیں۔
یہ معاملہ ذہن کی پختگی اور ناپختگی کا معاملہ ہے۔ ذہن کی ناپختگی نے سارا مسئلہ پیدا کیا۔ اگر مذکورہ کوچ کے مسافر پختہ ذہن کے لوگ ہوتے تو نہ یہ مسئلہ پیدا ہوتا اور نہ سینکڑوں مسافروں کو یہ غیرضروری مصیبت اٹھانی پڑتی۔
ذہن کی پختگی کیا ہے۔ ذہن کی پختگی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ آدمی ایسی حقیقت کو قبول کر لے جس کو وہ بدل نہیں سکتا۔ ناپختہ ذہن کے لوگ ایسی صورت حال پیش آنے پر چیخ اٹھتے ہیں، اور پختہ ذہن کے لوگوں کو ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو وہ اس سے موافقت کر لیتے ہیں، تاکہ ان کا سفر حیات کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
مذکورہ70 مسافروں کے واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہوا کہ وہ ذہنی پختگی کے اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اگر وہ لوگ ایسا کرتے کہ وقتی طور پر ائیرکنڈیشنر کی محرومی پر صبر کر لیں تو ان کا مسئلہ صرف ایک مسئلہ رہتا ہے۔ یعنی وقتی طور پر تھوڑی سی گرمی کو برداشت کر لینا۔ مگر جب انہوں نے صبر نہیں کیا تو ان کا مسئلہ مزید بڑھ کر کئی مسئلہ بن گیا۔
موجودہ دنیا میں سب کچھ کسی کی مرضی کے مطابق ہونا ممکن نہیں۔ یہاں زندگی نقصان پر راضی ہونے کا نام ہے۔ جو آدمی ایک نقصان پر راضی نہ ہو اس کو آخر کار کئی نقصان پر راضی ہونا پڑے گا۔ نقصان کے وقت رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، وہی چیز ہے، جس کو مذہب کی زبان میں صبر کہا گیا ہے۔
صبرکامیاب زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص کامیابی کے راستے پر قائم نہیں رہ سکتا— نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر، لوگوں کی ایذاؤں کے مقابلے میں صبر، جان ومال کے نقصان کے مقابلے میں صبر، ناخوش گوار تجربات کے مقابلے میں صبر، محرومی کے واقعات پر صبر، مصیبتوں کے مقابلے میں صبر، وغیرہ۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ صبر ایک انسان کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود پازیٹو سوچ پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔