اقدام، نتیجہ
ٹائم میگزین (23 دسمبر 1991ء) کی کور اسٹوری سوویت یونین کے خاتمہ کے بارے میں تھی۔ اس میں سابق سوویت یونین کے سابق صدر گورباچیف کا ایک انٹرویو (exclusive interview) شامل تھا جس کا عنوان ایک آدمی بغیر ملک (A Man without a Country) تھا۔
ٹائم کے شمارہ 13 جنوری 1992ء میں اس کے بارے میں قارئین کے تاثرات چھپے ہیں۔ ٹائم کے ایک قاری نے لکھا ہے کہ گوربا چیف کی قبر پر تاریخ جوکتبہ لگائے اس کے الفاظ کچھ اس قسم کے ہوں گے— یہاں ایک عمدہ آدمی اور ایک آئیڈیلسٹ آرام کر رہا ہے جس نے سوویت یونین میں جبر اور تشدد کو ختم کیا، اس حقیقت کو نہ جانتے ہوئے کہ جبر اور تشدد ہی وہ سریش تھا جو اس ایمپائر کے مختلف حصوں کو باہم جوڑے ہوئے تھا:
The epitaph of history of Mikhail Gorbachev may someday read : Here lies a good man and an idealist who abolished repression and tyranny in the Soviet Union, not comprehending that they were the glue holding that empire together. (George Podzamsky, Berwyn, Illinois)
ٹائم کے قاری کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ اس میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ کسی ا قدام کا نتیجہ آدمی کی خواہش کی بنیاد پر نہیں نکلتا بلکہ خارجی حقائق کی بنیاد پر نکلتا ہے۔
گورباچیف کا اقدام فی الاصل کیا تھا، اس سے قطع نظر، اس کی یہ نصیحت بے حد اہم ہے۔ کوئی فرد ہو یا کوئی قوم، اگرو ہ کوئی عملی اقدام کرے تو اس کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جس طرح اقدام کرنا اس کے اپنے بس میں ہے اسی طرح نتیجہ اس کے اپنے بس میں نہیں۔ نتیجہ کا معاملہ دوسرے بہت سے خارجی اسباب سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر یہ خارجی اسباب موافقت کریں تو نتیجہ موافق نکلے گا اور اگر یہ اسباب موافقت نہ کریں تو اس کے بعد موافق نتیجہ بھی نکلنے والا نہیں۔
کسی اقدام کا نتیجہ اپنی خواہش کے مطابق نہ نکلنا بلکہ حقائقِ تاریخی کے مطابق نکلنا، یہ اتنا اہم قانون ہے کہ کوئی سپرپاور بھی اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ حقائقِ خارجی ہمیشہ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں، خواہ ہم اس کو پسند کریں یا ناپسند۔