ایک تقابل
لارڈمیکالے (T. B. Macaulay) 1834ء میں ہندوستان آیا۔ سپریم کونسل آف انڈیا کے ایک اہم ممبر کی حیثیت سے اس نے وہ تعلیمی نظام شروع کیا جو بالآخر ’’انگریزی نظام تعلیم‘‘ کے نام سے پورے ملک میں رائج ہو گیا۔ اس نظامِ تعلیم کا مقصد ، میکالے کے الفاظ میں یہ تھاکہ ، اس کے ذریعہ سے ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو پیدائش کے اعتبار سے ہندوستانی مگر خیالات کے اعتبار سے انگریز ہو:
So that a generation may arise which will be Indian in birth and English in thought.
مسلمانوں کے تمام بے ریش اور باریش لیڈر (سرسیّد کے واحد استثناء کو چھوڑ کر) اس نظام تعلیم کے خلاف ہو گئے۔ وہ اس کی مخالفت میں تقریر کرنے لگے۔ کسی نے اس کو ’’قتل گاہ‘‘ کہا۔ کسی نے اسکے اوپر یہ شعر چسپاں کیا:
بچوں کے کبھی قتل سے بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
بیشتر لوگوں نے اس تعلیمی نظام میں شرکت نہیں کی۔ جو لوگ اس میں داخل ہو گئے تھے وہ درمیان ہی میں اس کو چھوڑ کر اس سے الگ ہو گئے۔ اس مخالفانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں سے کم ازکم دو سو سال پیچھے ہو گئے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ان کی یہی پسماندگی ہے۔ کیوں کہ تعلیم سے محرومی آدمی کو بے شعور بناتی ہے اور جو لوگ بے شعور ہوں ، اس دنیا میں ان کے لیے بربادی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔
اب ایک اورتصویر دیکھیے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 1945ء میں جاپان کو کے مقابلہ میں شکست ہو گئی۔ اس کے بعد امریکہ سیاسی ، فوجی ، انتظامی ، ہر اعتبار سے جاپان پر قابض ہو گیا۔ اس شکست کے بعد جاپان نے اپنے آپ کو مکمل طور پر امریکہ کی ماتحتی میں پایا۔ امریکہ نے اس کے بعد جبری طور پر جاپان کو غیر مسلح کر دیا۔ جاپان کے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں۔ دسمبر 1945ء میں امریکی جنرل میکارتھر نے تعلیمی انتظام کے متعلق وہ بنیادی ہدایات جاری کیں جن کا خاص مقصد جاپان میں عسکریت کو اور جاپانی عوام کے قوم پرستانہ مزاج کو ختم کرنا تھا۔
جنگ کے زمانہ کے بہت سے ٹیچر ملازمت سے سبکدوش کردیے گئے۔ مذہب اور سیاست کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا۔ شنٹو تعلیمات کو نصاب سے خارج قرار دیا گیا۔ ان تبدیلیوں کا مقصد یہ تھا کہ جاپان کی جدید نسل کو امریکہ کی پسند کے مطابق بنایا جائے۔ 1946ء میں امریکہ کے تعلیمی ماہرین کی ایک ٹیم باقاعدہ منصوبہ کے تحت جاپان پہنچی۔ اس امریکی ٹیم نے ایک رپورٹ تیار کی جس کا نام حسب ذیل تھا:
Report of the United States Education Mission to Japan.
یہ رپورٹ گویا ان ہدایات کی عملی تفصیل تھی جن کو جنرل میکارتھر نے جاپان کی وزارت تعلیم کے نام جاپان کے مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت سے جاری کیا تھا۔ 1947ء میں جاپان کا بنیادی تعلیمی قانون اور اسکولی تعلیم کا قانون اسی کی مطابقت میں وضع کیا گیا۔ 1948ء میں جاپان کاتعلیمی بورڈ بنایا گیا جس کا کام گویا اس بات کی نگرانی کرناتھاکہ جاپان کا تعلیمی نظام امریکہ کی پسندکے مطابق جاری رہے۔ اس طرح جاپان میں اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطحوں پر جو تعلیمی نظام رائج ہواوہ مکمل طور پر اس نظام کی نقل تھی جو امریکہ میں پہلے سے چل رہا تھا۔
جاپانیوں نے ہندوستان کے مسلم رہنمائوں کے برعکس، امریکہ کے اس منصوبہ کو ’’تعلیمی استعمار‘‘ بتا کر اس کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کی تحریک نہیں چلائی۔ انہوں نے ایک دن ضائع کیے بغیر اپنی پوری نسل کو اس ’’امریکی تعلیمی نظام‘‘ میں داخل کر دیا۔
اب اس واقعہ پر تقریباً نصف صدی پوری ہو رہی ہے۔ اس کا جو نتیجہ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس تعلیمی نظام میں پڑھ کر جو لوگ نکلے ، وہ پورے معنوں میں ’’جاپانی‘‘ تھے۔ وہ کسی بھی اعتبار سے ’’امریکی‘‘ نہ بن سکے۔ جیسا کہ امریکہ انہیں بنانا چاہتا تھا۔ حتیٰ کہ انہوں نے امریکہ کی تمام امیدوں کے خلاف ، جاپان میں ایک نیا انقلاب برپا کردیا۔ انہوں نے جاپان کی ایک نئی تاریخ پیدا کر دی۔ انہوں نے ترقی کا ایک ایسا سیلاب جاری کیا جس کے بہائو میں خود امریکہ بھی ٹھہر نہ سکا۔ انہوں نے جاپان کو دنیا کی قوموں کے درمیان اعلیٰ ترین صف میںکھڑا کر دیا۔
یہی موجودہ دنیا میں ترقی کا راز ہے۔ یہاں کامیابی اور ترقی اس کے لیے ہے جو ناموافق صورت حال کو موافق صورت حال میں تبدیل کر سکے۔ جو دشمن کے مخالفانہ منصوبوں کو اپنے لیے مفید خوراک بنا لے جو اپنے ’’نہیں‘‘ کو اپنے ’’ہے‘‘ میں تبدیل کرنے کی اہلیت کا ثبوت دے۔ جو لوگ اس برتر صلاحیت کے حامل ہوں وہی مقابلہ کی اس دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام ہو جائیں۔ ان کے لیے اس کے سوا اور کچھ مقدر نہیں کہ تاریخ کے کوڑا خانہ میں پڑے ہوئے دوسروں کے خلاف احتجاج کرتے رہیں ، ایسا احتجاج جس کو سننے کے لیے کوئی دوسرا وہاں موجود بھی نہ ہو۔
اس معاملہ میں جس طرح ہمارے ملک کا سیکولر طبقہ ناکام ثابت ہوا ہے ، اسی طرح اسلام پسند طبقہ بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اکبر الٰہ آبادی اور ابو الاعلیٰ مودودی جیسے لوگوں نے انگریزی دور کی تعلیم گاہوں کو قتل گاہ بتایااور ایک پوری نسل کو اس سے روکنے کی کوشش کی۔
یہ احمقانہ حد تک بے معنی بات تھی۔ اسلام پسند رہنمائوں کے کرنے کااصل کام یہ تھاکہ وہ مسلم نوجوانوںمیں یہ شعور پیداکریں کہ وہ انگریزی تعلیم گاہوں سے تعلیم کو لیں اور اس کی انگریزیت کو چھوڑ دیں۔ مگر اپنے سطحی فکر کی بنا پر انہوں نے منفی انداز اختیار کیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک پوری نسل تعلیمی اعتبار سے برباد ہو کر رہ گئی۔ اس معاملہ میں جاپان کے اہل کفر ہندوستان کے اہل ایمان سے زیادہ عقل مند ثابت ہوئے۔