غیر معمولی انسان
وان وورسٹ(Bruce van Voorst) ایک امریکی جرنلسٹ ہے۔ اس نے جنگی رپورٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ہے۔ ڈامی نیکن(Dominican Republic) کی جنگ، ایرانی انقلابیوں کی شاہ کے خلاف جنگ، عراق اور ایران کی جنگ اور خلیجی جنگ(1991ء) میں اس نے میدان جنگ میں پہنچ کر براہ راست رپورٹنگ کی ہے۔
ٹائم میگزین(4 فروری1991ء) میں وان وورسٹ کے کچھ تجربات شائع کیے گئے ہیں۔ اس نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات جنگ کے وقت فوجیوں کی صفت(Quality) اور سالمیت(Integrity) کے بارے میںتھی۔ اس نے کہا کہ جب جنگی مقابلہ جاری ہو تو فوجی حیرت انگیز طور پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ مشکلات سے بے پروا ہو کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جنگ میں یہ فوجی عام فوجی نہیں ہوتے، وہ سب کے سب غیر معمولی لوگ بن جاتے ہیں:
In battle there are no ordinary soldiers, they are all extraordinary.(p.4)
امریکی صحافی نے جو بات فوجیوں کے بارے میں کہی، وہ ہر انسان اور ہر مقابلہ کے لیے یکساں طور پر صحیح ہے۔ انسان کے اندر پیدائشی طور پر بے شمار صلاحیتیں ہیں۔ عام حالات میں یہ صلاحیتیں سوئی ہوئی رہتی ہیں۔ مگر جب کوئی خطرہ پیش آتا ہے، جب چیلنج کی صورت حال سامنے آتی ہے تو اچانک انسان کی تمام سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اس سے پہلے اگر اس کے’’پاور ہائوس‘‘ کا صرف ایک بلب جل رہا تھا تو اب اس کے تمام بلب بیک وقت جل اٹھتے ہیں۔
اب اس کی عقل زیادہ گہری سوچ کا ثبوت دیتی ہے۔ اس کا جسم مزید طاقتوں کے ساتھ متحرک ہو جاتا ہے۔ اس کی پوری ہستی ایک ہیروانہ کردار کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ چیلنج کمزور انسان کو طاقتور انسان بنا دیتا ہے۔ وہ نادان آدمی کو ہوشیار آدمی بنا دیتا ہے۔ چیلنج بظاہر ایک رکاوٹ ہے، مگر اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ اعلیٰ ترین ترقی کا سب سے بڑا زینہ ہے— مقابلہ پیش آنے سے پہلے ہر انسان ایک معمولی انسان ہے، مگر مقابلہ پیش آنے کے بعد ہر انسان غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔
جہاں اسکوپ نہ ہو وہاں زیادہ اسکوپ ہوتا ہے۔ جہاں بظاہر مواقع نہ ہوں وہاں اور زیادہ بڑے مواقع آدمی کے لیے چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ایک مسلم نوجوان ہیں، ان کے کچھ رشتہ دار امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ امریکہ گئے۔ وہاں تعلیم حاصل کی۔ دو سال تک امریکہ میں ملازمت بھی کی۔ پھر انہیں خیال آیا کہ اپنے ملک میں آئیں اور یہاں اپنی زندگی کی تعمیر کریں چنانچہ وہ ہندستان واپس آگئے۔
ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان واپس آ کر ذہنی انتشار میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ یہاں جو میرے دوست اور رشتہ دار ہیں، وہ سب کہہ رہے ہیں کہ تم نے بہت نادانی کی کہ تم امریکہ چھوڑ کر ہندوستان آگئے۔ وہاں تم کو ترقی کے بڑے بڑے مواقع مل سکتے تھے۔ یہاں تو تمہارے لیے کوئی اسکوپ نہیں۔
میں نے جواب دیا کہ آپ کے دوست اور رشتہ دار سب الٹی باتیں کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہندوستان میں اسکوپ نہیں، اسی لیے تو یہاں اسکوپ ہے۔ ہندوستان میں آپ کے لیے ترقی کے وہ تمام مواقع ہیں جو امریکہ میں ہیں، بلکہ یہاں آپ امریکہ سے بھی زیادہ بڑی ترقی کر سکتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ترقی کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ ایک، خارجی مواقع۔ دوسرے، اندرونی امکانات۔ خارجی مواقع سے مراد وہ مواقع ہیں جو آپ کے وجود کے باہر خارجی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اندرونی امکانات سے مراد وہ فطری استعداد ہے جو آپ کے ذہن اور آپ کے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے۔
عام طور پر لوگوں کی نگاہ دنیا کے خارجی مواقع پر ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں ملک میں مواقع ہیں اور فلاں ملک میں مواقع نہیں ہیں۔ مگر ترقی کے لیے اس سے بھی زیادہ اہمیت ان صلاحیتوں کی ہے جو فطرت سے ہر آدمی کو ملی ہوئی ہیں۔ کوئی بھی آدمی ان سے خالی نہیں۔
جب زندگی کی مشکلیں آدمی کو چیلنج کرتی ہیں تو اس کی چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ حالات کا جھٹکا انہیں جگا کر متحرک کر دیتا ہے۔ یہ بیداری کسی انسان کی زندگی میں اس کی ترقی کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکہ میں یہ اسکوپ ہے کہ وہاں خارجی مواقع موجود ہیں۔ ہندستان میں یہ اسکوپ ہے کہ یہاں چیلنج کی صورت حال پائی جاتی ہے جو آدمی کی فطری صلاحیتوں کو آخری حد تک جگا دیتی ہے۔ اور پہلے اسکوپ کے مقابلے میں دوسرا اسکوپ بلاشبہ کہیں زیادہ قیمتی ہے۔