سبق آموز
امریکی میگزین ٹائم(10 فروری1992) کی کور اسٹوری کا موضوع ہے— امریکہ کے بارے میں جاپان کا ذہن، اور جاپان کے بارے میں امریکہ کا ذہن:
America in the mind of Japan,
Japan in the mind of America.
اس رپورٹ کا خلاصہ، میگزین کے الفاظ میں، یہ ہے کہ امریکہ اور جاپان کی بظاہر نااتفاقی ایک زیادہ گہری سچائی کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ یہ کہ دونوں قومیں ایک دوسرے کو اپنی ضرورت سمجھتی ہیں:
Friction between the U.S. and Japan masks a deeper truth: the two nations need each other. (p.8)
میگزین نے لکھا ہے کہ امریکہ اگرچہ اب بھی بہت طاقت ور اقتصادیات کا مالک ہے مگر اب وہ اپنے بارے میں محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک تخفیف شدہ چیز ہے۔ پرانا دشمن، سوویت یونین، اب ختم ہوگیا ہے۔ جاپان کے مقابلہ میں امریکہ41 بلین ڈالر کے بقدر تجارتی خسارہ میں ہے۔ اس اعتبار سے کچھ امریکی جاپان کو اپنا نیا دشمن سمجھتے ہیں:
America, still the most powerful economy, nonetheless feels itself to be somehow the diminished thing. The old enemy, the Soviet Union, has vanished. With the U.S running a $41 billion trade deficit with Japan, the once deferential partner begins to look to some Americans like the new enemy. (p. 9)
دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو امریکہ کی حیثیت غالب کی تھی اور جاپان کی حیثیت مغلوب کی۔ مگر آج یہ ترتیب الٹ گئی ہے۔ اس کی وجہ تمام تر اخلاقی ہے۔ امریکہ نے ہتھیار کے اعتبار سے جاپان کے اوپر غلبہ حاصل کیا تھا۔ مگر آخر کار کردار کی طاقت نے اپنا کام کیا۔ جاپان زیادہ بہتر کردار سے مسلح ہو کر امریکہ کے اوپر غالب آگیا۔
میگزین کے مطابق، اکثر جاپانی اور اسی طرح بہت سے امریکی بھی، امریکہ کے اقتصادی مسائل کی ذمہ داری خود امریکہ کے اوپر ڈالتے ہیں۔ مساوکونی ہیرو(Masao Kunihiro) جو ایک جاپانی اینتھرا پولوجسٹ ہیں، انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ایمرسن کے قدیم عقیدہ کا کیا ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر تم ایک اچھا چوہے دان بنائو گے تو دنیا خود چل کر تمہارے دروازہ پر پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ چیز تھی جس نے امریکہ کو اس اقتصادی اور صنعتی طاقت تک پہنچایا جیسا کہ وہ آج ہے۔ مگر ہم میں سے اکثر لوگ، صحیح یا غلط طورپر، یہ خیال رکھتے ہیں کہ امریکہ اب ایسے چوہے دان نہیں دے رہا ہے جو جاپانی چوہے دان سے اچھا ہو۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب امریکہ میں کارکردگی کا معیار گھٹ گیا ہے:
Whatever happened to the good old Emersonian credo that if you build a better mousetrap, the world will beat a path to your door. That is what made America what it is today, economically and industrially powerful. But many of us, rightly or wrongly, now feel that the U.S. is no longer turning out mousetraps which are better than ours. (p. 14)
ایک اور جاپانی مبصر یوشیو ساکوراچی(Yoshio Sakurauchi) نے امریکہ کی کمی کے بارے میں عام جاپانی تاثر کو بتاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے تجارتی مسئلہ کی جڑ امریکی کارکن کی کارکردگی کا ناقص معیار ہے:
The root of America`s trade problem lies in the inferior quality of American labor. (p. 14)
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے خلاف جو ظالمانہ سلوک کیا تھا، اگر جاپان یہ کرتا کہ وہ اپنے زبان و قلم کو امریکہ کے ظلم اور اس کی سازش کے خلاف پروپیگنڈے میں لگا دیتاتوجاپان کچھ بھی حاصل نہ کرتا۔ بلکہ جنگ کے بعد جو کچھ اس کے پاس بچا تھا اس کو بھی وہ لفظی احتجاج کی مہم میں کھو دیتا۔ جاپان نے امریکہ کے سلوک پر’’صبر‘‘ کر لیا۔ اس نے امریکہ کے خلاف شوروغل کرنے کے بجائے خود تعمیری کو اپنا مشن بنایا۔ اس کا نتیجہ نہایت شاندار نکلا۔ صرف چالیس سال کی مدت میں تاریخ بدل گئی۔ جو پیچھے تھا وہ آگے ہوگیا، اور جس نے آگے کی سیٹ پر قبضہ کر رکھا تھا اس کو مجبور ہو کر پچھلی سیٹ پر واپس جانا پڑا۔