تجارتی کامیابی
امریکہ کے تاجر اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے ہر قابل قیاس اور ناقابل قیاس تدبیریں کرتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں ضرورت کی تمام چیزیں قسطوں پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ویکیوم کلینر ہو یا کئی ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی عالی شان عمارت، موٹر کار ہو یا جیٹ طیارہ، ہر چیز آسان قسطوں پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ امریکیوں کے درمیان یہ کہاوت عام ہو گئی ہے کہ اگر آپ کے اندر اقساط ادا کرنے کی استطاعت ہو تو آپ امریکہ کو بھی خرید سکتے ہیں بشرطیکہ وہ بک رہا ہو۔
امریکہ کے تجارتی ادارہ کی ایک اہم ترین خصوصیت وہ ہے جس کو گاہک نوازی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے بڑے بڑے تاجر ہمہ وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے گاہک کو خوش کریں اور انہیں اپنے بارے میں مطمئن کر سکیں۔
اسی گاہک نوازی کے اصول کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ کسی تجارتی ادارہ کی ایک شاخ سے خریدا ہوا مال، ناقص ہونے یا پسند نہ آنے کی صورت میں ادارے کی کسی بھی شاخ کو، کسی بھی شہر میں، یہ کہہ کر لوٹا یا جا سکتا ہے کہ خریدنے کے بعد پسند نہیں آیا۔ نہ جھنجھلاہٹ نہ استفسار۔ بس رسید پاس ہونی چاہیے۔ قیمت فی الفور لوٹا دی جاتی ہے۔ ’’خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو گا‘‘ کا لفظ امریکی کاروباری لغت کے لیے اجنبی ہے۔
اگر ہندوستان میں کچھ لوگ ایسا کریںکہ وہ ایک لمیٹڈ کمپنی یا کواپریٹو سوسائٹی قائم کریں اور مشترکہ سرمایہ سے ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھولیں جہاں ہر طرح کا سامان بکتا ہو، اور یہ ضمانت دیں کہ کسی بھی اسٹور سے خریدا ہوا سامان کسی بھی اسٹور پر واپس کیاجا سکتا ہے تو ایسے کاروبار کی سارے ہندوستان میں دھوم مچ جائے گی۔ اور وہ یقینی طور پر زبردست کامیابی حاصل کرے گا۔
یہ تجارتی میدان اس ملک میں مکمل طور پر خالی ہے۔ یہاں کسی کے لیے اجارہ داری کی حد تک کامیابی کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ تاہم اس امکان سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کے اندر یہ ضروری صفات پائی جاتی ہوں— محنت، دیانت داری اور اشتراک عمل۔