کامیابی کا راز
ٹاٹا خاندان نے صنعت کے میدان میں ہندوستان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ان کا صنعتی پھیلائو اتنا زیادہ ہے کہ اس کو ٹاٹا انڈسٹریل ا یمپائر کہا جاتا ہے۔ یہ ترقی انہیں اتفاقاً حاصل نہیں ہوگئی۔ بلکہ اس کے معلوم اسباب ہیں۔ ان اسباب میں نمایاں ترین وہ اخلاقی اوصاف ہیں جس کا ثبوت وہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے دے رہے ہیں۔
1۔ صنعتی کامیابی کی یہ کہانی گجرات کے ایک پارسی جمشید جی نوشیرواں جی ٹاٹا (1839-1904)سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے 1868ء میں بمبئی میں21 ہزار روپیہ کی لاگت سے ایک تجارتی کمپنی شروع کی۔ جمشید جی ٹاٹا کے بعد اس کے بڑے صاحبزادےدواربجی ٹاٹا نے اس کمپنی کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے اسٹیل کا کارخانہ ٹاٹا اسٹیل وغیرہ قائم کیا۔ یہ ابتدا ترقی کرتے کرتے آج ایک انڈسٹریل ایمپائر بن چکی ہے۔ مگر ٹاٹا گروپ پورے استقلال اور اتحاد کے ساتھ اپنی مہم میں لگا ہوا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کے استقلال اور اتحاد کو توڑنے والی نہ بن سکی۔
2۔ دورابجی ٹاٹا کے بعد جے آر ڈی ٹاٹا نے 1938 میں اس کاروبار کو بہت زیادہ ترقی دی ہے۔ ان کو بجا طور پر عظیم بصیرت والا انسان (great visionary) کہا جاتا ہے۔ ان کی بصیرت اور دوراندیشی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ہندوستان میں ہوا بازی کی اہمیت کو سمجھا۔ وہ پہلے ہندوستانی پائلٹ ہیں جن کو مارچ1929ء میں ہوائی جہاز چلانے کا لائسنس دیا گیا۔ 1932 میں پہلی ہوائی کمپنی ٹاٹا ائیرویز کے نام سے قائم کی گئی تھی ۔آزادی کے بعد1947 میں ہندوستانی حکومت نے ٹاٹا ائیرویز میں بڑا حصہ خرید کر اس کو اپنے کنٹرول لے لیا۔ پھر اس کا نام ائیر انڈیا رکھ دیا گیا۔
3۔ جہانگیر رتن جی دادا بھائی ٹاٹا(JRD Tata, 1904-1993) غیر معمولی وسعت ظرف کے مالک ہیں۔1930 میں آغا خاں نے اعلان کیا کہ انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان جو شخص سب سے کم وقت میں جہاز اڑا کر لے جائے گا اس کو وہ بہت بڑا انعام دیں گے۔ اس پر جے آر ڈی ٹاٹا نے کراچی سے اپنا جہازا اڑایا۔ ایک اور شخص لندن سے روانہ ہوا۔ درمیان میں دونوں تیل لینے کے لیے قاہرہ میں اترے۔
اس وقت ٹاٹا کو معلوم ہوا کہ ان کے حریف کو ایک پرزہ کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اس کو اس وقت تک قاہرہ ائیرپورٹ پر انتظار کرنا پڑے گا جب تک انگلینڈ سے وہ پرزہ نہ آ جائے۔ ٹاٹا کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بلا مقابلہ کامیابی حاصل کر لیں۔ مگر انہوں نے وسعت ظرف سے کام لیتے ہوئے وہ پرزہ اپنے پاس سے اپنے حریف کو دے دیا۔ اس فیاضی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا حریف مقابلہ جیت گیا۔ مگر ٹاٹا نے کبھی اس کے بارے میں کسی قسم کے ملال کا اظہار نہیں کیا۔
4۔ انسانی احترام کے بارے میں جے آر ڈی ٹاٹا بے حد حساس ہیں۔ اختیارات کے باوجود وہ اپنی رائے دوسروں کے اوپر نہیں تھوپتے۔ بلکہ ہمیشہ دوسروں کو متاثر کرنے کا طریقہ (Dersuasion therapy) استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار ان کی کمپنی کے ایک ڈائریکٹر نے ایک لفٹ پر یہ نوٹس لگا دی کہ اس لفٹ کو صرف ڈائریکٹر حضرات ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹاٹا کو معلوم ہوا تو وہ تیزی سے مذکورہ مقام پر پہنچے اور خود اپنے ہاتھ سے اس نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا(ہندستان ٹائمس3 فروری1992)۔
اس دنیا میں کامیابی کا راز، ایک لفظ میں، بااصول ہونا ہے۔ یہاں اصول کے مطابق زندگی گزارنے والا آدمی کامیاب ہوتا ہے اور اصول سے انحراف کرنے والا آدمی ناکام۔
اصول کیا ہے۔ اصول دراصل حقائق سے مطابقت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ حقائق اگر استقلال کا تقاضا کریں تو آدمی غیر مستقل مزاجی کے ساتھ یہاں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حقائق اگردوراندیش آدمی کا ساتھ دیتے ہوں تو دور اندیشی کے خلاف رویہ کا ثبوت دے کر یہاں کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ حقائق کا مطالبہ اگر یہ ہو کہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص لوگوں کے مزاج کے خلاف چلے اور اس کے باوجود وہ کامیاب ہو۔
نیز یہ کہ اصول کو مفادات سے بلند ہو کر اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ایسا کرے کہ جہاں بظاہر فائدہ نظر آئے وہاں وہ اصول پسند بن جائے اور جہاں فائدہ دکھائی نہ دے وہاں وہ اصول کو چھوڑ دے تو ایسے شخص کو بااصول نہیں کہا جا سکتا۔
جو شخص اصول کو مفادات کے تابع رکھے وہ اس دنیا میں چھوٹی کامیابی تو حاصل کر سکتا ہے۔ مگر یہاں بڑی کامیابی صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو اصول کو اصول کے لیے اختیار کرے، جو مفادات کی پروا کیے بغیر اصول پر قائم رہنے والا ہو۔