سفرِ حیات
جیومیٹری کے اصولوں میں سے ایک مشہور اصول یہ ہے کہ— دو نقطوں کے درمیان قریب ترین فاصلہ سیدھی لکیر کا ہوتا ہے:
A straight line is the shortest distance between two points.
یہ بات روشنی کے سفرکے لیے نہایت درست ہے۔ کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ روشنی ہمیشہ خط مستقیم (سیدھی لکیر) کے اصول پر سفرکرتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس اصول کو انسانی زندگی کے سفر کے لیے استعمال کرنے لگے تو اس کا سفر صرف بھٹکائو کے ہم معنی بن کر رہ جائے گا۔
اگر آپ اپنے گھر سے نکلیں اور یہ چاہیں کہ آخری منزل تک بالکل خط مستقیم پرسفر کریں تو ایسا کرنے کی صورت میں کہیں آپ کسی کھڈ میں جا گریں گے۔ کہیں کسی پہاڑ سے ٹکرا جائیں گے۔ کہیںدریا کی موجیں آپ کے سفر کو موت کاسفر بنادیں گی۔ اس لیے کوئی بھی آنکھ والا آدمی ایسا نہیں کرتا کہ وہ خط مستقیم کے اصول پر اپنا سفر جاری کر دے۔ ہر آنکھ والا آدمی مقامات سفر کی رعایت سے اپنے سفر کارخ متعین کرتا ہے۔ وہ جیومیٹری کے اصولوں کے تحت کبھی اپنے سفر کا راستہ نہیں بناتا۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان ساری دنیا میں مفروضہ دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سفر حیات کے لیے اٹھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے راستے میں دریا اور پہاڑ کی مانند کچھ قومیں حائل ہیں۔ وہ فوراً ان قوموں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیتے ہیں۔
یہ طریقہ جو موجودہ زمانہ کے مسلمان ساری دنیامیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ گویا خط مستقیم میں سفرکرنے کی کوشش ہے۔ مگر ایسی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کی سرگرمیاں صرف موت کی سرگرمیاں ہیں۔ وہ ہرگز زندگی کی سرگرمیاں نہیں۔
زندگی کا سفر جیومیٹری کے اصولوں پر طے نہیں ہوتا۔ وہ حالات کی موافقت اورناموافقت کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ سفر حیات کا حقیقت پسندانہ منصوبہ وہی ہے اور وہی منصوبہ اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے جس میں خارجی حالات کی پوری رعایت شامل ہو۔