محنت کے ذریعہ
باپسی سدھوا (Bapsi Sidhwa, b. 1936) ایک پارسی خاتون ہیں۔ وہ پاکستان (لاہور) کی رہنے والی ہیں۔ آج کل وہ ٹکساس (امریکہ) کی یونیورسٹی آف ہائوسٹن میں استاد ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کی لکھی ہوئی کتابیں (ناولیں) انٹرنیشنل سطح کے پبلشنگ اداروں میں چھپتی ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باپسی سدھوا کی رسمی تعلیم بالکل نہیں ہوئی۔ وہ اپنے وطن لاہور کے ایک سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ ان کو پولیو کی بیماری ہو گئی۔ ان کے والدین نے ان کے لیے باضابطہ تعلیم کو ناممکن سمجھ کر ان کو سکول سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ ٹیوٹر کے ذریعہ اپنے گھر پر پڑھنے لگیں ۔ مگر ٹیوٹرکا سلسلہ بھی بہت زیادہ دن تک باقی نہیں رہا۔
اب باپسی سدھوا کا شوق ان کا رہنما تھا۔ وہ خود سے پڑھنے لگیں ۔ وہ ہروقت انگریزی کتابیں پڑھتی رہتیں ۔ اپنے الفاظ میں، وہ کبھی سیر نہ ہونے والی قاری (voracious reader) بن گئیں۔ آخر انہوں نے اپنی محنت سے یہ درجہ حاصل کر لیا کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں۔ مگردو سال تک یہ حال تھاکہ انہیں اپنے بھیجے ہوئے مضمون کے جواب میں صرف انکاری تحریریں (rejection slips) ملتی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب کا مسودہ آٹھ سال تک ان کی الماری میں پڑا ہوا گرد آلود ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان پرمایوسی کے دورے پڑنے لگے۔
آخر کار حالات بدلے۔ ان کے مضامین باہر کے میگزینوں میں چھپنے لگے۔ اب وہ عالمی سطح پر پڑھی جانے والی انگریزی رائٹر بن چکی ہیں۔ رسمی ڈگری نہ ہونے کے باوجود وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں تخلیقی تحریر (creative writing) کا مضمون پڑھا رہی ہیں (ٹائمس آف انڈیا 25 فروری 1990) ۔حقیقت یہ ہے کہ تمام علوم محنت کی درسگاہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ تمام ترقیاں محنت کی قیمت دے کر حاصل ہوتی ہیں۔ اور محنت وہ چیز ہے جو ہر آدمی کو حاصل رہتی ہے۔ حتیٰ کہ اس آدمی کو بھی جس کو بیماری نے معذور بنا دیا ہو، جو کالج اور یونیورسٹی کی ڈگری لینے میں ناکام ثابت ہوا ہو — محنت ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی کسی کے لیے ختم نہیں ہوتا۔