ایک مثال
مالیگائوں کے فساد کے بارے میں دہلی کے ایک اردو ماہنامہ (افکار ملی ستمبر 1992ء) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا خلاصہ خود اسی کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’مالیگائوں میں 19 جولائی 1992ء کو فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس فساد میں تین کروڑ روپے کی مالیت لوٹی گئی یا اسے جلا دیا گیا۔ تین مسلمان جاں بحق ہو گئے۔ 135 سے زائد افراد زخمی ہوکر اہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ کاروبار بند ہونے کی باعث یہاں کی آبادیاں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، مایوسی اور افسردگی کی شکار نظر آتی ہیں۔ مزدور طبقہ بھوک مری کے اندیشہ میں مبتلا ہے اور تاجر پیشہ افراد اقتصادی مشکلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
19 جولائی کو بابری مسجد کے مسئلہ پر اپنے غم و غصہ کے اظہار کے لیے مسلمانوں نے اپنے کاروبار اور دکانیں بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ’’بابری مسجد بچائو‘‘ تحریک کے ضمن میں مقامی جنتادل کے ایم ایل اے جناب نہال احمد نے مسجد کے تحفظ کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل دینے کے بعد 18 جولائی کی شب میں قدوائی روڈ پرایک جلسۂ عام منعقد کیا اور 19 جولائی کو مالیگائوں بند رکھنے کے اعلان کے ساتھ احتجاجی جلوس کے اہتمام کا اعلان بھی کر دیا۔ عام طور پر مسلمانوں میں اس تجویز کا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ شہر میں موجودہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا نقطۂ آغاز یہی تھا۔
دوسرے دن 25-30 ہزار افراد پر مشتمل ایک مورچہ (احتجاجی جلوس) جناب نہال احمدکی قیادت میں قلعہ کے پاس سے نکلا۔ مگر یہ مورچہ موسم پل تک بھی نہیں پہنچا ہو گا کہ انتشار و اشتعال کا شکار ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک غیر مسلم فوٹوگرافر نے مورچہ میں شامل چند مسلمانوں کے منع کرنے کے باوجود تصویریں کھینچنے کا کام بند نہیں کیا تو اس سے کیمرہ چھیننے کی کوشش کی گئی۔ اس چھینا جھپٹی کے دوران پولیس کے آدمی وہاں پہنچ کر معاملہ کو رفع دفع کررہے تھے کہ جلوس کے کچھ افراد نے سنگ باری شروع کر دی اور پھر وہیں سے عمل اور ردعمل کا ہولناک سلسلہ شروع ہو گیا۔‘‘
برداشت والے لوگ اگر جلوس نکالیں تو اس کا نام مظاہرہ ہے، اور بے برداشت لوگ اگر جلوس نکالیں تو اس کا نام فساد۔