بیس سال بعد
’’کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا‘‘—چھ لفظ کے اس جملہ کو آج ایک شخص چھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اپنی زبان سے ادا کر سکتا ہے۔ مگر اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس (Christopher Columbus) کو 20 پُرمشقت سال صرف کرنے پڑے۔
کرسٹوفر کولمبس 1451 میں اٹلی میں پیدا ہوا۔1506 میں اسپین میں اس کی وفات ہوئی۔ امریکہ کی دریافت حقیقۃً یورپ کے لیے مشرق کا سمندری راستہ دریافت کرنے کی کوشش کا ایک ضمنی حاصل(by-product) تھی۔ کولمبس نے 1484 میں پرتگال کے شاہ جان دوم(John II) سے درخواست کی کہ وہ اس بحری سفر کے لیے اس کی مدد کرے۔ مگر شاہ پرتگال نے اس کو بے فائدہ سمجھ کر مدد کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد کولمبس نے کیسٹلی(Castile) کی ملکہ ازبیلا(Isabella) سے مدد کی درخواست کی یہاں بھی اس کو مثبت جواب نہیں ملا۔ تاہم کولمبس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ یہاں تک کہ آٹھ سال کے بعد ملکہ نے اس کو کشتیاں اور ضروری سامان مہیا کر دیا۔ کولمبس نے تین کشتیوں کے ساتھ اپنا پہلا سفر3 اگست 1492 کو شروع کیا۔ تاہم اس سفر میں وہ امریکہ کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ہر قسم کی مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود کولمبس اپنی کوشش میں لگا رہا۔
آخر کار چوتھے سفر کے بعد1504 میں وہ’’نئی دنیا‘‘ کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا (EB 10/691)۔ کولمبس سے پہلے دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ کولمبس کی دریافت نے (نئی اور پرانی) دونوں دنیائوں کو ملا کر ایک کر دیا۔ یہ بلاشبہ ایک عظیم دریافت تھی۔ مگر یہ دریافت صرف اس وقت ممکن ہو سکی جب کہ کولمبس اور اس کے ساتھی بے حوصلہ ہوئے بغیر 20 سال تک اس جان جوکھم منصوبہ کی تکمیل میں لگے رہے۔
یہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے۔ اس دنیا میں ہر کامیابی’’20 سالہ‘‘ محنت مانگتی ہے۔ اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس دنیا میں ہر کامیابی لمبی جدوجہد کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ آدمی پہلے کم پر راضی ہوتا ہے، اس کے بعد وہ زیادہ تک پہنچتا ہے۔
نیل آرم اسٹرانگ پہلے شخص ہیں جنہوں نے چاند کا سفر کیا۔ 21 جولائی1969ء کو انہوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اتر کر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا۔ اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی ربط قائم تھا۔ چاند پر اترنے کے بعد انہوں نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے، مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے:
That`s one small step for man, but one giant leap for mankind.
آرم اسٹرانگ کا مطلب یہ تھا کہ میرا اس وقت چاند پر اترنا بظاہر صرف ایک شخص کا چاند پر اترنا ہے۔ مگر وہ ایک نئے کائناتی دور کا آغاز ہے۔ ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ انسان کے لیے چاند کا سفر ممکن ہے۔ یہ دریافت آئندہ آگے بڑھے گی۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا جب کہ عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارہ تک اسی طرح سفر کرنے لگیں جس طرح وہ موجودہ زمین کے اوپر کرتے ہیں۔
ہر بڑا کام موجودہ دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے۔ ابتداء ًایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح وہ انسانی سفر کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں۔ یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے۔ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکانے کے ہم معنی ہے۔ مگر جب یہ ابتدائی کام ہو جاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔ اب ایک ایسا کشادہ راستہ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے کہ انسانی قافلے بڑی تعداد میں اس پر سفر کر سکیں۔
کسان جب زمین میں ایک بیج ڈالتا ہے تو وہ گویا زراعت کی طرف ایک ’’چھوٹا قدم‘‘ ہوتا ہے تاہم اس چھوٹے قدم کے ساتھ ہی کسان کے زرعی سفر کا آغا ہو جاتا ہے۔ یہ سفر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے کہ اس کے کھیت میں ایک پوری فصل کھڑی ہوئی نظر آئے۔ یہی طریقہ تمام انسانی معاملات کے لیے درست ہے، خواہ وہ زراعت اور باغبانی کا معاملہ ہو یا اور کوئی معاملہ۔