اختیار اور بے اختیاری
مشہور سائنس دان آئن سٹائن نے طبیعیاتی دنیا کے ایک اصول کو اس طرح بیان کیا ہے— توانائی نہ پیدا کی جا سکتی اورنہ ختم کی جاسکتی:
energy can neither be created nor destroyed.
یہ واقعہ خالق کی قدرت کاملہ کا ثبوت ہے۔ انسان موجودہ دنیا کو صرف استعمال کر سکتا ہے۔ وہ اس کو بدلنے یا اس کو مٹانے پر قادر نہیں۔ اسی سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ انسان اس دنیامیں مالک کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ صرف تابع کی حیثیت سے ہے۔ اسی صورت حال کو مذہب کی اصطلاح میں امتحان کہا جاتاہے۔ انسان اس دنیا میں صرف اس لیے آتا ہے تاکہ وہ محدود مدت میں یہاں رہ کر اپنے امتحان کا پرچہ پورا کرے۔ اس کے بعد وہ یہاں سے چلا جائے گا۔ اس سے زیادہ کسی اور چیز کا اس کو مطلق اختیارنہیں۔
بعض انسان دنیا کے حالات سے مایوس ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو ختم یا معدوم کر رہے ہیں، مگر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ جس طرح دنیاکی اس توانائی کو مٹایا نہیں جا سکتا جو مادہ کے روپ میں ظاہر ہوئی ہے۔ اسی طرح یہاں اس توانائی کو مٹانا بھی ممکن نہیں جو انسان کی صورت میں متشکل ہوتی ہے۔ انسان کے اختیار میں خودکشی ہے، مگر انسان کے اختیار میں معدومیت نہیں۔ یہ صورت حال علامتی طور پر بتاتی ہے کہ انسان کا معاملہ اس دنیا میں کیا ہے۔
انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حقیقت واقعہ کا انکار کردے۔ مگر حقیقت واقعہ کو بدلنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ سرکشی کرے مگر سرکشی کے انجام سے اپنے آپ کو بچانا اس کے لیے ممکن نہیں۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ اخلاقی پابندی کو قبول نہ کرے مگر اخلاق کی مطلوبیت کو کائنات سے حذف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے مگر اس کو یہ اختیار نہیں کہ اپنے چاہنے ہی کو وہ اس معیاری اصول کی حیثیت دے دے جس کے مطابق بالآخر تمام انسانوں کا فیصلہ کیا جانے والا ہے— انسان اس دنیا میں آزاد ہے، مگر اس کی آزادی محدود ہے ، نہ کہ لامحدود۔