غصہ کا انجام
دہلی میں قرول باغ کے علاقہ میں اجمل خاں روڈ ہے۔ یہاں ایک ساتھ جوتے کی دو دکانیں تھیں۔ ایک دکان کے مالک کا نام سریندر کمار (35 سال) ہے اور دوسری دکان کے مالک کانام بلراج ارورا (45 سال)۔ ایک ہفتہ پہلے سریندر کمار کی دکان سے ایک شخص نے ایک جوڑا جوتا خریدا۔ دکاندار نے اس کی قیمت 180 روپے حاصل کی۔ گاہک باہرنکلا تو دوسرے دکاندار بلراج ارورا نے اس کو آواز دے کر بلایا۔ اس کا جوتا دیکھ کر پوچھا کہ اس کو تم نے کتنی قیمت میں خریدا۔ اس نے بتایا کہ 180 روپے میں۔ بلراج ارورا نے اسی قسم کا جوتا اپنی دکان سے نکال کر دکھایا اور کہا کہ دیکھو، یہ وہی جوتا ہے اور یہ میں تم کو صرف 135 روپے میں دے سکتا ہوں (دی پاینیر 14 اکتوبر 1992ء)
گاہک غصہ ہو گیا۔ وہ جوتا لے کر دوبارہ سریندر کمار کے یہاں آیا اور کہا کہ تم نے قیمت زیادہ لی ہے۔ مجھ کو 45 روپے واپس کرو۔ اس پر سریندر کمار بگڑ گیا اور پڑوس کی دکان پر جا کر بلراج ارورا کو ڈانٹنے لگا۔ کچھ لوگوں نے درمیان میں پڑ کر فوری طور پر دونوں کو اپنی اپنی دکان میں واپس بھیج دیا۔ مگر غصہ بدستور باقی رہا۔ یہاں تک کہ ایک ہفتہ بعد 13 اکتوبر 1992ء کو سریندر کمار نے بلراج ارورا سے تیز تیز باتیںکیں، اور آخر کار جیب سے ریوالور (32 bore Smith and Wesson) نکالا اور ایک کے بعد ایک چھ گولیاں اس کے اوپر خالی کر دیں۔ بلراج ارورا کو فوراً لوہیا ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کو مُردہ قرار دیا۔
اب قاتل کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اب یا تو مقتول کی طرح قاتل کو بھی پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔ یا قاتل لاکھوں روپیہ خرچ کر کے مقدمہ کو اپنے موافق بنائے اور عدالت سے رہائی کا فیصلہ حاصل کر لے۔ایک صورت اگر قاتل کے لیے جسمانی موت ہے تو دوسری صورت اس کے لیے مالی موت۔
قاتل اگر غصہ اور انتقام سے مغلوب نہ ہوتاتو بہت آسانی کے ساتھ وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس کے لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ وہ مذکورہ گاہک کو 45 روپیہ ادا کر کے اسے رخصت کر دے اور پھر جہاں تک پڑوسی دکاندار کا مسئلہ ہے، اس کو تجارتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے۔