اعتراف
سید مشتاق علی کرکٹ کے انتہائی مشہور کھلاڑی ہیں۔ مسٹر شرد ور مانے ان سے انٹرویو لیا جو ہندوستان ٹائمس (15 مئی 1987) میں شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہماری کرکٹ کی تاریخ میں بہت کم افراد نے وہ غیر معمولی مقام حاصل کیا ہے، جو سید مشتاق علی نے حاصل کیا۔ تقریباً بیس سال تک وہ کرکٹ کے ہیرو بنے رہے۔ ان کے متعلق سرکارڈوس (Sir Neville Cardus) نے کہا تھاکہ مشتاق گویا کہ ایک بازیگر ہے، جو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ اسی طرح کیتھ ملر (Keith Miller) نے کہا کہ وہ ہمارے وقت کے ناقابل یقین حد تک اچھے کھلاڑی ہیں۔
سید مشتاق علی کی شہرت 1930ء میں شروع ہوئی جب کہ ان کی عمر صرف 16 سال تھی۔ وہ اگرچہ کم کھیلتے تھے۔ مگر جب کھیلتے تھے تو ان کا کھیل سب سے زیادہ ممتاز ہوتا تھا۔1945-46ء میں کلکتہ میں آسٹریلیا کی ٹیم اور ہندوستان کی ٹیم کا مقابلہ تھا۔ سید مشتاق علی کو ہندوستان کی ٹیم سے خارج کر دیا گیا۔ اس پر کلکتہ میں زبردست مظاہرے ہوئے اور ہر طرف یہ نعرہ گونج اٹھا:
No Mushtaq, No Test
آخرکار منتظمین نے سید مشتاق علی کو ٹیم میں شامل کیا۔ اب سید مشتاق علی کی عمر 72 سال ہو چکی ہے۔ مسٹر شرد ورما سے اپنے حالات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بار انگلینڈ میں ہندوستانی اور انگریزی ٹیم کا مقابلہ تھا۔ انگریزی ٹیم کے کپتان ویلی ہیمنڈ (Wally Hammond) تھے۔ سید مشتاق علی نے رن بنانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ وہ نوّے سے آگے بڑھ گئے۔ ویلی ہیمنڈ اگرچہ مخالف ٹیم کے کپتان تھے، وہ اپنے جذبہ اعتراف کو روک نہ سکے۔ انہوں نے تیزی سے آ کر مشتاق علی کا کندھا تھپتھپایا اور کہا کہ جمے رہو، میرے بیٹے جمے رہو، اپنا سو پورا کرو:
Steady, my boy, steady, get your hundred first.
مردہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت بے اعترافی ہے اور زندہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت اعتراف۔ زندہ انسان کے سامنے ایک حقیقت آئے یا وہ ایک خوبی کا مشاہدہ کرے تو وہ اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، خواہ یہ اعتراف اپنی ہار ماننے کے ہم معنی کیوں نہ ہو۔