مواقع کا استعمال
اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ اجتماعی حکمت کی ایک عظیم الشان مثال ہے۔ مکہ کے قریش نے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی سخت مخالفت کی۔ مگر شروع ہی سے ان کے درمیان ایک عنصر موجود تھا جو یہ چاہتا تھا کہ ہم محمد سے براہ راست نہ ٹکرائیں۔ بلکہ ان کا رخ دوسرے عرب قبائل کی طرف پھیر دیں۔ پیغمبر اسلام نے اس ذہن کو اپنے حق میں استعمال کیا۔
مکہ کے سرداروں میں ایک ممتاز سردار عُتبہ بن ربیعہ تھا۔ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے کہ قریش نے ایک بار عُتبہ کو اپنا نمائندہ بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس ملاقات کا تفصیلی بیان سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ عُتبہ جب آپ سے گفتگو کے بعد واپس آیا تو اس نے قریش سے کہا:
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَطِيعُونِي وَاجْعَلُوهَا بِي، وَخَلُّوا بَيْنَ هَذَا الرَّجُلِ وَبَيْنَ مَا هُوَ فِيهِ فَاعْتَزِلُوهُ... فَإِنْ تُصِبْهُ الْعَرَبُ فَقَدْ كُفِيتُمُوهُ بِغَيْرِكُمْ، وَإِنْ يَظْهَرْ عَلَى الْعَرَبِ فَمُلْكُهُ مُلْكُكُمْ، وَعِزُّهُ عِزُّكُم(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ294)۔ یعنی اے قریش کے لوگو، میری بات مانو اور اس آدمی کے درمیان اور جس میں وہ ہے اس کے درمیان حائل نہ ہو۔ اور اسے چھوڑ دو... اگر عرب اس سے نمٹ لیں تو وہ تمہارے لیے کافی ہوگا، اور اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہے اور اس کی عزت تمہاری عزت ہے۔
اسی طرح ہجرت کے بعد جب قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ بدر چھیڑنے کے لیے نکلے تو راستہ میں آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ اس وقت عتبہ نے قریش کے ایک گروہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مکہ والوں سے کہا:يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إنَّكُمْ وَاَللَّهِ مَا تَصْنَعُونَ بِأَنْ تَلَقَّوْا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ شَيْئًا، وَاَللَّهِ لَئِنْ أَصَبْتُمُوهُ لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَنْظُرُ فِي وَجْهِ رَجُلٍ يَكْرَهُ النَّظَرَ إلَيْهِ، قَتَلَ ابْنَ عَمِّهِ أَوْ ابْنَ خَالِهِ، أَوْ رَجُلًا مِنْ عَشِيرَتِهِ، فَارْجِعُوا وَخَلُّوا بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَبَيْنَ سَائِرِ الْعَرَبِ، فَإِنْ أَصَابُوهُ فَذَاكَ الَّذِي أَرَدْتُمْ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ أَلْفَاكُمْ وَلَمْ تَعَرَّضُوا مِنْهُ مَا تُرِيدُونَ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ623)۔ یعنی اے قریش کے لوگو، خدا کی قسم محمد اور ان کے اصحاب سے ٹکرا کر تم کچھ بھی حاصل نہ کر سکو گے۔ خدا کی قسم اگر ان سے تمہاری مڈبھیڑ ہوئی تو ہمارے ہر آدمی کے سامنے کسی ا یسے آدمی کا چہرہ ہوگا جس کو قتل کرنا اسے پسند نہ ہو، یعنی چچا کا لڑکا، ماموں کا لڑکا یا اپنے قبیلہ کا کوئی آدمی۔ اس لیے تم لوٹ چلو اور محمد اور عرب قبائل کے درمیان سے ہٹ جائو۔ اگر اہل عرب محمد پر غالب آگئے تو یہ وہی ہوگا جو تم چاہتے ہو۔ اور اگر محمد عرب قبائل پر غالب آگئے تو محمد تم کو اس حال میں پائیں گے کہ تم نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ہوگی۔
موجودہ دنیا امتحان اور مقابلہ کی دنیا ہے۔ یہاں یہ ممکن نہیں کہ فریق ثانی کو عین اپنی پسند کی شرطوں پر راضی کیا جا سکے۔ بیشتر حالات میں خود اپنے آپ کو فریق ثانی کی شرطوں پر راضی کرنا پڑتا ہے۔ یہ راضی ہونا سرینڈر نہیں بلکہ حکمت ہے جس سے آدمی اپنے لیے نقطہ آغاز پا لیتا ہے۔
یہی آدمی کی حکمت اور تدبیر کا امتحان ہے۔ یہاں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ فریق ثانی کی شرطوں میں کہاں وہ گنجائش ہے، جس کو مان کر ہم اپنے لیے مستقبل کی تعمیر کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر یہی کیا۔ آپ نے کمال دانش مندی کے ساتھ قریش کے مذکورہ ذہن کو سمجھا اور اس کو انتہائی حکمت کے ساتھ استعمال کیا۔ چنانچہ حدبیبہ کے مقام پر جب قریش نے آپ کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس وقت آپ نے قریش کو جو پیغام بھیجا اس میں یہ الفاظ بھی شامل تھے:
إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ وَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ نَهِكَتْهُم الْحَرْبُ وَأَضَرَّتْ بِهِمِ فَإنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً وَيُخَلُّوا بَينِي وَبَيْنَ النَّاسِ فَإنْ أَظْهَرْ فَإنْ شَاءُوا أنْ يَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوا (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد3، صفحہ330)۔ یعنی ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ بلکہ ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اور جنگ نے قریش کا برا حال کر رکھا ہے اور ان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو میں ان کے لیے ایک مدت(صلح کی) مقرر کر دوں اور وہ میرے اور دوسرے عرب قبائل کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اگر میں غالب رہا تو وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہو جائیں گے جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں۔ اور اگر میں غالب نہ ہوا تو ان کا مدعا حاصل ہے۔