یہ اسلام نہیں
ایک مقام پر رمضان کے زمانہ میں فساد ہو گیا۔ وہاں کے ایک صاحب سے 25 دسمبر 1987ء کو میری ملاقات ہوئی۔ میں نے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ رات کا وقت تھا۔ مسلمان مسجد میں تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں سڑک سے شور و غل سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ دوسری قوم کے لوگوں کی شادی پارٹی گزر رہی ہے اور جگہ جگہ رک کر گاتی بجاتی ہے۔ اس وقت مسجد سے نکل کر کچھ مسلمان سڑک پر آئے اور جلوس والوں سے کہا کہ آپ لوگ یہاں شور نہ کریں۔ کیوں کہ مسجد کے اندر ہماری نماز ہو رہی ہے۔ مگر وہ لوگ نہیں مانے۔ اس پر تکرار ہوئی یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے فساد ہو گیا۔
میں نے کہاکہ یہ تو آپ لوگوں کا طریقہ ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں مکہ پر اور بیت اللہ پر مشرکین کا قبضہ تھا۔ وہ لوگ رسول اللہ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستاتے تھے۔ اسی میں سے ایک یہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب جب بیت اللہ میں جاتے تو وہ لوگ وہاں آ کر شور و غل کرتے۔ وہ سیٹی بجاتے اور تالیاں پیٹتے اور کہتے کہ یہ ہمارا عبادت کا طریقہ ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (8:35)۔ یعنی اور بیت اللہ کے پاس ان کی نماز اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ سیٹی بجانا اور تالی پیٹنا۔ تو اب عذاب چکھو اپنے انکار کی وجہ سے۔
اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں چند تفسیروں کے حوالے یہ ہیں:
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَيْضًا أَنَّهُ قَالَ:كَانُوا يَضَعُونَ خُدُودَهُمْ عَلَى الْأَرْضِ ويُصَفِّقُون ويُصَفِّرُون. قَالَ مُجَاهِدٌ: وَإِنَّمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ذَلِكَ لِيَخْلِطُوا بِذَلِكَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِلَاتَهُ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ:يَسْتَهْزِئُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ.(تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ52)۔ یعنی صحابیٔ رسول ا بن عمر نے کہاکہ مکہ کے مشرکین اپنے رخسار زمین پر رکھتے اور تالی بجاتے اور سیٹی بجاتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو گڈ مڈ کر دیں اور زُھری نے کہا کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے ایساکرتے تھے۔
وذَلِكَ أنَّهم كانُوا يَطُوفُونَ بِالبَيْتِ عُراةً، وهم مُشَبِّكُونَ بَيْنَ أصابِعِهِمْ، يُصَفِّرُونَ فِيها، ويُصَفِّقُونَ. وكانُوا يَفْعَلُونَ نَحْوَ ذَلِكَ إذا قَرَأ رَسُولُ اللهِ ﷺ في صِلاتِهِ، يُخَلِّطُونَ عَلَيْهِ.(تفسیر النسفی، جلد1، صفحہ644)۔ یعنی وہ بیت اللہ کاننگے طواف کرتے اور وہ انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر اس میں سیٹی بجاتے اور تالیاں بجاتے۔ وہ ایسا اس وقت کرتے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآن پڑھتے ، وہ گڈ مڈ کرنا چاہتے تھے۔
أي ما كانت عبادة المشركين وصلاتهم عند البيت الحرام إِلا تصفيراً وتصفيقاً، وكانوا يفعلونهما إِذا صلى المسلمون ليخلطوا عليهم صلاتهم(صفوۃ التفاسیر، جلد1، صفحہ467)۔ یعنی بیت اللہ الحرام میں مشرکین کی عبادت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ سیٹی بجاتے اور تالیاں بجاتے۔ اور یہ دونوں کام وہ اس وقت کرتے جب کہ مسلمان نماز پڑھتے تاکہ ان کی نماز کو گڑبڑ کر دیں۔
عن سعيد قال كانت قريش يعارضون النبي صلى الله عليه وسلّم في الطواف يستهزؤن به يصفرون ويصفقون ...وقال مقاتل كان النبي صلى الله عليه وسلّم إذا صلى في المسجد قام رجلان عن يمينه فيصفران ورجلان عن يساره فيصفقان ليخلطوا على النبي صلى الله عليه وسلّم صلوته(التفسیر المظہری، جلد4، صفحہ63)۔ یعنی حضرت سعیدنے کہاکہ قریش طواف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے۔ وہ آپ کا مذاق اڑاتے، وہ سیٹی بجاتے اور تالی بجاتے... اور مقاتل نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد حرام میں نماز پڑھتے تو آپ کے دائیں طرف دو آدمی کھڑے ہو جاتے اور دونوں سیٹی بجاتے اور دو آدمی آپ کے بائیں طرف کھڑے ہو جاتے اور تالیاں بجاتے تاکہ رسول اللہ پر آپ کی نماز کو گڈ مڈ کر دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 13 سال تک رہے۔ وہاں مسلسل آپ کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا رہا، جس کا ذکر اوپر کے اقتباسات میں آیا ہے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ اس کے خلاف کوئی احتجاج یا کوئی جوابی کارروائی کریں۔ آپ اس قسم کی تمام باتوں پر یک طرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس زمانہ میں اہل ایمان کی ایک تعداد جمع ہو گئی تھی۔ یہ لوگ نہایت بہادر اور جان نثار تھے۔ مگر ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر مشرکوں پر ہجوم کریں یا ان کو شور و غل سے روکنے کے لیے کوئی جوابی عملی کارروائی کریں۔
مشرکوں کے شور و غل پر آپ کا چپ رہنا خوف کے تحت نہیں تھا بلکہ منصوبہ کے تحت تھا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ایک کام کو کرنے کے لیے دوسرے کام کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ آپ خدا کے پیغام کی پیغام رسانی کرنا چاہتے تھے ، اس لیے آپ نے ضروری سمجھا کہ جھگڑے اور ٹکرائو والی باتوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی ان تمام باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف دعوت و تبلیغ کی محنت میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حالات میں تبدیلی فرمائی۔ اس کے بعد مشرکین کے شور کا بھی خاتمہ ہو گیا اور خود مشرکین کا بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد کے اندر گھس کر شور و غل کیا جاتا تھا۔ تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے اس کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ مسجد کے قریب کی سڑک پر کوئی جلوس شور کرتا ہوا گزرے تو وہ اس سے لڑنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر اسلام وہ ہے جو رسول اللہ نے کیا تو مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ اسلام نہیں اور اگر اسلام وہ ہے جو موجودہ زمانہ کے مسلمان کر رہے ہیں تو رسول اللہ نے جو کچھ کیا وہ اسلام نہیں تھا۔ اب مسلمانوں کو اختیار ہے کہ وہ دونوں میں سے جس بات کو چاہیں اپنے لیے پسند کر لیں۔
New Spirit of Cooperation
UNITED NATIONS, December 6, 1988.
NIKTA KHRUSHCHEV, the last Soviet communist party leader to address the general assembly, pounded a shore on his desk and assured Americans that ''we will bury you.'' Mr Mikhail Gorbachov's arrival 28years later starkly underscores the transformation in the U.S. Soviet relations since he took control of the party. In diplomatic circles today, the talk is of cooperation, mutual interests, and multilateral diplomacy. Confrontation between the capitalist and socialist systems has taken a back seat. U.S. tycoons woo Mr Gorbachov and his staff hints at a visit to Wall Street, the antithesis of Soviet ideology. In 1960, Khrushchev was enraged over the then UN secretary-general, Mr Dag Hammarskjold's action in sending U.S. peacekeeping troops to the Congo, then a key Soviet client state. ''The general assembly of 1960 was the greatest circus in the history of the United Nations,'' recalls Mr Brian Urquhart, who then was under secretary-geeral in charge of peacekeeping operations. Sometimes crude, profane and easily angered, Khrushchev created the most memorable scene in the history of U.N. debate when he interrupted a delegate's remarks by pounding a shoe on the Soviet delegation's desk for a point of order. ''Khurushchev got so abusive that the Irish president of the assembly, Mr Frenddie Boland, broke the gavel in calling him to order, and head of the gavel flew off into the general assembly,'' said Mr Urquhart. Mr Gorbachov is likely to provide no melodramatic fireworks. Unlike Khrushchev, Mr Gorbachov has rejected the idea that capitalism and socialism are mutually exclusive. This stress on cooperation in areas of mutual interest has been spilling over for some time into the UN.
The Soviet Union has in recent years relinquished its practice of vetoing many security council actions, and has negotiated consensus positions with the US, China, Britain and France. This new spirit of cooperation has led to the political settlement in Afghanistan and the cease-fire in the Iran-Iraq war, both of which would have been unlikely under the confrontative Soviet style of Khruschev or Mr Leonid I. Brezhnev. Under Mr Gorbachov, the Soviets have been promoting an aggressive though hazy new plan for comprehensive international security, in which the Un would play a key role in monitoring, verification and peacekeeping. be made binding on U.N. member nations, especially security council members. In his speech to the world body, Mr Gorbachov may expand upon previous Soviet proposals, which have included the establishment of a world space organisation, having all nations earmark troops for a standing army of U.N. peacekeepers, establishing a U.N. navy to escort commercial shipping in danger zones, and UN. monitoring of disarmament and international arms sales. The US and other Western allies have lauded parts of the Soviet security proposals, but feel the whole package is too vague to endorse. A U.N. visit by a Soviet leader is a rarity--- the foreign minister usually delivers the annual address to the general assembly. Between Khrushchev and Mr Gorbachov, the only other top-ranking Soviet visitor was premier Alexei N. Kosygin, who came the UN in 1967 to support Arab complaints against Israel. Mr Kosygin held a summit with the U.S. president, Mr Lyndon B. Johnson.
The thaw in East-West relations since Mr Gorbachov's ascension to power is all the more striking when compared with the tension that prevailed at the UN only five years ago after the Soviet downing of Korean airline flight 007, with the loss of 269 lives. The Soviet foreign minister, Mr Andrei Gromyko, planned to come to the UN to explain his country's actions, but the governors of New York and New jersey denied permission for his plane to land at their commercial airports, and the state department insisted on a landing at a military base.Mr Gromyko cancelled his visit. In the meantime, homeless activists angered by Gorbachov's plans to visit New York city's opulent Trump Tower are inviting the Soviet president to a homeless shelter and food line to get ''a more balanced and realistic view of our nation.''
The Times of India, December 7, 1988.