کامیاب سفر
20 جنوری 1984ء کی صبح کو تھائی ائیر ویز کا جہاز (Boeing 747) کراچی سے پچھم کی طرف اڑا۔ یہ 29 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑان کر رہا تھا۔ عین اسی وقت انڈین ائیر لائنز کا ایک جہاز بمبئی سے دہلی کی طرف جانے والا تھا۔ انڈین ائیر لائنزکے جہازکو بھی 29 ہزار فٹ کی بلند پر اڑنا تھا۔ اس کی روانگی ہونے ہی والی تھی کہ عین وقت پر معلوم ہوا کہ تھائی ائیر ویز کا جہاز اسی سمت میں آرہا ہے۔ اگر انڈین ائیر لائنز کا پائلٹ اپنے پروگرام کے مطابق اپنا جہاز اڑاتا تو منڈسور (مدھیہ پردیش) کے اوپر دونوں کا ٹکرائو ہو جاتا۔ تھائی ائیر ویز کا جہاز بھی اپنے تمام مسافروں کے ساتھ برباد ہو جاتا اور انڈین ائیر لائنز کا جہاز بھی (ٹائمس آف انڈیا 25 جنوری 1984ء)
ائیر ٹرافک کنٹرول کو بالکل آخری وقت میں اس کی اطلاع مل سکی۔ اس نے فوراً انڈین ائیر لائنزکے کیپٹن سے کہا کہ تم یا تھائی ائیر ویزکے جہاز سے نیچے (25 ہزار فٹ) کی بلندی پر اڑان کرو یا اگر تم 29 ہزار فٹ کی بلندی پر اپنا جہاز اڑانا چاہتے ہو تو پچیس منٹ دیر سے اڑان شروع کرو۔ انڈین ائیر لائنز کے کیپٹن نے دوسری تجویز کو پسند کیا اور پچیس منٹ کی دیر کے بعد اپنا جہاز اڑایا۔ اس طرح دو جہاز بین فضائی ٹکرائو (Mid-air collision) سے بچ گئے۔ انڈین ائیر لائنز کا جہاز اپنے ابتدائی پروگرام کے مطابق منڈسورکے اوپر سے صبح سات بجے گزرتا، مگر پروگرام کی تبدیلی کے بعد وہ منڈسور کے اوپر سے صبح ساڑھے سات بجے گزرا۔ انڈین ائیر لائنز کے ایک افسر نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک معجزہ تھا جس نے دونوں جہازوں کے مسافروںکو بچا لیا:
It was a miracle which saved passengers on both aircrafts.
یہی وسیع تر اعتبار سے زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ اگر آپ ’’29 ہزار فٹ‘‘ کی بلندی پر اڑنا چاہتے ہیں تو اس کو نہ بھولیے کہ یہاں دوسرے لوگ بھی ہیں اور وہ بھی 29 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑان کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کے لیے دو ہی صورت ہے۔ یا تو دوسروں کا لحاظ کیے بغیر اپنی اڑان شروع کر دیں اور پھر تباہ ہو کر جھوٹی قربانی کی مثال قائم کریں۔ یا پھر یہ ’’معجزہ‘‘ دکھائیں کہ دوسرے سے نیچے اڑ کر آگے نکل جائیں یا ’’آدھ گھنٹہ‘‘ کی تاخیر سے اپنی اڑان شروع کریں۔ دونوں صورتوں میں آپ کامیاب رہیں گے اور حفاظت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچیں گے۔