کامیابی کا ٹکٹ
امریکہ میں ایشیائی ملکوں سے آئے ہوئے جو لوگ آباد ہیں ان کو عام طور پر ایشیائی امریکی (Asian American) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر1965ء کے بعد یہاں آئے۔ امریکہ میں ان کی موجودہ تعداد تقریباً2 فیصد ہے۔ ان میں کچھ یہودی ہیں، کچھ بدھسٹ ہیں، کچھ کنفیوشش کو ماننے والے ہیں، اور اسی طرح بعض دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
امریکہ میں اپنے مستقبل کی تعمیر کا مطلب اگر وہ یہ سمجھتے کہ ان کے فرقہ کا آدمی صدر کے عہدہ پر پہنچ جائے تو انہیں امریکہ میں اپنے لیے ترقی کادروازہ بالکل بند نظر آتا۔ کیوں کہ صدر کے عہدہ کے لیے امریکہ کا پیدائشی شہری(natural-born citizen) ہونا ضروری ہے، اور ایشیائی لوگ اس تعریف میں نہیں آتے۔ صدارت کو اپنا نشانہ بنانے کی صورت میں ایشیائی مہاجرین یا تو مایوسی کا شکار ہوتے یا اس بات کی ناکام مہم چلاتے کہ امریکی دستور میں ترمیم کرکے صدارت کی اس شرط کو ختم کیا جائے تاکہ ان کا آدمی بھی صدر کے عہدہ کے لیے جائز امیدوار بن کر کھڑا ہو سکے۔
مگر ایشیائی امریکیوں نے اس قسم کی حماقت نہیں کی۔ انہوں نے اپنے واقعی حالات کے اعتبار سے امریکہ کا جائزہ لیا تو انہیں نظر آیا کہ یہاں ان کے جیسی اقلیت کے لیے اگرچہ صدارتی عہدہ تک پہنچنے کے مواقع نہیں ہیں، مگر اعلیٰ تعلیمی عہدوں تک پہنچنے کے مواقع پوری طرح موجود ہیں۔ انہوں نے پایا کہ تعلیم ان کے لیے کامیابی کے ٹکٹ (ticket to success) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنی ساری طاقت تعلیم کے حصول میں لگا دی۔ چنانچہ انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ حتی کہ تعداد میں2 فیصد ہوتے ہوئے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں20 فیصد سیٹوں پر قابض ہوگئے۔
یہی دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ مواقع آدمی کے لیے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ مواقع اس کے لیے کھلے ہوئے نہیں ہوتے۔ آدمی کی بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ کھلے ہوئے مواقع کو استعمال کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اگر اس نے بند فاصلہ دروازوں سے سر ٹکرایا تو دروازہ تو نہیں کھلے گا، البتہ اس کاسر ضرور ٹوٹ جائے گا۔ خاص طور پر تعلیم آج کی دنیا میں کامیابی کا ٹکٹ ہے، اور اس ٹکٹ کو حاصل کرنے کے مواقع ہر آدمی کے لیے ہر جگہ کھلے ہوئے ہیں۔
یہ اصول جو افراد کی ترقی کا راز ہے، وہ ملکوں اور قوموں کی ترقی کا راز بھی ہے۔ اس سلسلہ میں جاپان ایک قابل تقلید مثال پیش کرتا ہے۔ جاپان کے بارے میں ایک امریکی مصنف کی ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے: جاپان نمبر ایک کی حیثیت سے۔ ڈھائی سو صفحہ کی اس کتاب میں مصنف نے دکھایا ہے کہ جاپان کس طرح دوسری جنگ عظیم میں مکمل شکست سے دو چار ہونے کے بعد دوبارہ اس طرح کھڑا ہوگیا کہ خود اپنے فاتح(امریکہ) کے لیے چیلنج بن گیا۔ مصنف کے الفاظ میں، جاپانی لوگ تبدیلی کے آقا بن گئے، بجائے اس کے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں۔ دوسرے ممالک کو بیرونی اثرات نے برباد کر دیا مگر جاپان نے اس سے طاقت پالی:
Thus they became the masters of change rather than the victims. Other countries were devastated by foreign influence, but japan was invigorated.
Ezra F. Vogel, Japan As Number One
Harward University Press, London 1979, p. 256
مصنف کے نزدیک جاپان کی اس غیر معمولی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس نے فوجی اور سیاسی میدان میں شکست کھانے کے بعد اپنے میدانِ عمل کو بدل دیا اور اپنی ساری توجہ علم کی راہ میں لگادی۔ اس کتاب کے تیسرے باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ جاپان کی موجودہ کامیابی کا واحد عامل (single factor) اگر کسی چیز کو قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے جاپانی قوم میں علم(knowldge) کی تلاش کا لامتناہی جذبہ۔ اس سلسلہ میں منصف نے لکھا ہے:
When a foreign visitor comes to Japan, most Japanese almost instinctively think, ''What can I learn from him?'' And the three million japanese who now travel abroad each year look for little hints of new ideas they might apply at home. (p. 29)
جب باہر کا کوئی آدمی جاپان آتا ہے تو اکثر جاپانی تقریباً جبلی طور پر سوچتے ہیں: ’’میں اس سے کیا بات سیکھ سکتا ہوں‘‘ اور تین ملین جاپانی جو آج کل ہر سال باہر کی دنیا کا سفر کرتے ہیں وہ جب باہر پہنچتے ہیں تو وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی نیا تصور ہاتھ آ جائے جس کو واپس جا کر وہ اپنے ملک میں استعمال کر سکیں۔