حکمت کا طریقہ
اس دنیا میں بے نزاع زندگی ممکن نہیں۔ آپ خواہ اپنوں کے درمیان رہتے ہوں یا غیروں کے درمیان، بہرحال آپ کے اور دوسروں کے بیچ میں نزاع کی صورتیں پیدا ہوں گی۔ ان نزاعات کی پیدائش کو آپ روک نہیں سکتے۔ البتہ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ پہلے ہی مرحلہ میں نزاع کو ختم کر کے اس کے برے انجام سے اپنے آپ کو بچا لیں۔
کبھی نظر انداز کرنے کی پالیسی ہی نزاع کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ کوئی شخص آپ کے خلاف اشتعال انگیز کلمات کہتا ہے۔ اس کا کامیاب ترین جواب یہ ہے کہ آپ اس کی اشتعال انگیزی پر مشتعل نہ ہوں۔ اس طرح آپ پیدا شدہ نزاع کو پہلے ہی مرحلہ میں کچل دیں گے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نزاع پیدا کرنے والا آپ کی عزت کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ وہ آپ کے لیے وقار کا مسئلہ کھڑا کر دیتا ہے۔ یہاں بھی وقار کے تحفظ کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ کی جائے۔ آپ یہ سوچ کر خاموش ہو جائیں کہ عزت کو دینے والا بھی خدا ہے اور عزت کو چھین لینے والا بھی خدا ہے۔ پھراس کے لیے میں ایک انسان سے کیوں الجھوں ۔ آپ کا یہ رویہ نزاع کو ختم کرنے کے لیے کافی ہو جائے گا۔
کبھی نزاع کے ساتھ فائدہ اور نقصان کا پہلو وابستہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے اگر صبر و اعتراض کی پالیسی اختیار کی گئی تو وہ مادی نقصان کا سبب بن جائے گی۔ مگر یہ سوچ درست نہیں۔ اس طرح کے معاملہ میں اصل انتخاب نقصان اور بے نقصان کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ کم نقصان اور زیادہ نقصان کے درمیان ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں نزاع کو پہلے مرحلہ میں ختم کرنا کم نقصان کا راستہ ہے اورنزاع کو بڑھانا زیادہ نقصان کا راستہ ۔ پھر کیوں نہ آدمی زیادہ نقصان کے راستہ کو چھوڑ کر کم نقصان والے راستہ کو اختیار کرے۔ ہم نزاع کی پیدائش کو روک نہیں سکتے۔ البتہ یہ یقینی طور پر ہمارے اختیار میں ہے کہ اعراض کا طریقہ اختیار کر کے اپنے آپ کو نزاع کے فتنہ سے بچا لیں۔ ہم زیادہ نقصان کے مقابلہ کم نقصان کو گوارا کر لیں۔