ضروری تیاری
گاندھی جی کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی ہے جو ’’گاندھی‘‘ کے نام سے کافی مشہور ہو چکی ہے۔ اس فلم میں گاندھی جی کا کردار ایک برٹش ایکٹر کنگسلے (Kingslay) نے ادا کیا تھا۔
کنگسلے نے اپنے آپ کو گاندھی کے روپ میں ڈھالنے کے لیے غیر معمولی مشقت برداشت کی۔ کنگسلے کی حقیقی زندگی نہایت شاہانہ ہے۔ اس کے دسترخوان پر اس سے بھی زیادہ کھانے کا سامان ہوتا ہے جتنا پہلے زمانہ میں روایتی قسم کے راجہ یا نواب کے دسترخوان پر ہوتا تھا۔ مگر گاندھی کا کردار اداکرنے کے لیے اس نے عرصہ تک نیم فاقہ کشی کی زندگی اختیار کی۔
کنگسلے ایک موٹے جسم کا آدمی تھا۔ جب کہ گاندھی جی ایک دبلے پتلے آدمی تھے جو اپنے ہاتھ میں ایک لٹھیا لے کر چلا کرتے تھے۔ اداکاری کا تقاضا تھا کہ کنگسلے جب اسکرین پر آئے تو وہ لوگوں کو دبلا پتلا گاندھی کی مانند دکھائی دے۔ چنانچہ اس نے مسلسل بھوکا رہ کر اور بہت کم غذا کھا کر اپنے آپ کو دبلا کیا۔ یہاں تک کہ اس کا وزن سات کلوگرام کم ہو گیا۔ یہی پرمشقت عمل اس مراٹھی خاتون کو بھی کرنا پڑا جس نے اس فلم میں گاندھی کی بیوی کستوربا کا کردار ادا کیا ہے۔
فلم کی فرضی کہانی میں مصنوعی کردار اداکرنا جتنا مشکل ہے اس سے بہت زیادہ مشکل یہ ہے کہ کوئی شخص حقیقی زندگی میں کسی قوم کی رہنمائی کے لیے اپنا کردا ر ادا کرے ۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ قومی رہنمائی کے میدان میں لوگ اس طرح بلاتیاری کود پڑتے ہیں جیسے کہ یہاں کسی اہتمام کی ضرورت ہی نہیں۔
قوم کی رہنمائی بلاشبہ تمام کاموں سے زیادہ مشکل کام ہے۔ فلم میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کنگسلے کو اپنے جسم کو مارنا پڑا تھا، قوم کا رہنما بننے کے لیے آدمی کو اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے۔ پہلے کام میں اداکار کو اپنے جسم کا موٹاپا گھٹانا پڑا تھا۔ دوسرے کام کے قابل بننے کے لیے ایک رہنما کو اپنے نفس کا موٹاپا کم کرنا پڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
جو لوگ اس ضروری تیاری کے بغیر قوم کی رہنمائی کے میدان میں داخل ہوں وہ قوم کے مجرم ہیں، نہ کہ قوم کے رہنما۔