مقصد کا تقاضا
ٹائمس آف انڈیا(26 مارچ 1987)کے ساتھ ایک ضمیمہ (The Times Offspring) شائع ہوا ہے۔ اس ضمیمہ میں مشہور انگریزی صحافی مسٹر خوشونت سنگھ کاایک انٹرویو درج ہے۔ اس انٹرویو کا ایک سوال و جواب یہ ہے:
Q: You are a media man. How is it that you are so against television.as you once mentioned in your' Malice' column?
A: Well, I am aganist my viewing it. I had one set in Bombay at my residence.As a result I could not concentrate on anything else.I would simply switch on the T.V. and see the programme being trans-mitted,whatever nonsense it might be .So i told the television company to take it back, since i prefer to read and write.
سوال: آپ میڈیا کے ایک آدمی ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ آپ ٹیلی ویژن کے اس قدر مخالف ہیں جیسا کہ آپ نے ایک بار اپنے مستقل کالم میں لکھا تھا۔
جواب: جی ہاں، میں اپنے ٹیلی ویژن دیکھنے کے خلاف ہوں۔ بمبئی میں میرے مکان میں ایک ٹیلی ویژن سیٹ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں کسی بھی دوسری چیز پر اپنے ذہن کو لگا نہیں پاتا تھا۔ میں بس ٹی وی کا بٹن دبا دیتا اور جو کچھ اس پر آتا اس کو دیکھتا رہتا، خواہ وہ کتناہی بے معنی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ میں نے ٹیلی ویژن کمپنی سے کہا کہ وہ اس کوواپس لے جائے۔ کیوں کہ میں لکھنے پڑھنے کو زیادہ پسند کرتا تھا۔
مسٹر خوشونت سنگھ نے اس معاملہ میں جو کچھ کیا اس کو ہماری زبان میں ’’ترجیح‘‘ کہا جاتا ہے۔ ترجیح کا یہ اصول کسی بامقصد انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگر آپ کے سامنے ایک مقصد ہو تو آپ کو لازماً یہ کرنا پڑے گا کہ آپ اصل مقصد کے سوا دوسری تمام چیزوں میں اپنی دلچسپی ختم کر دیں۔ اپنی توجہ کو دوسری تمام سمتوں سے ہٹا کر صرف مقصد کے رُخ پر لگا دیں۔ یہ کامیابی کی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر موجودہ دنیا میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیزکو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چھوڑنے والی چیز کو نہ چھوڑیں تو اس دنیامیں آپ پانے والی چیز کو بھی نہیں پائیں گے۔