سوچ کا فرق
فریڈرک لینگ برج (Frederick Langbridge) انگریزی کاایک شاعر ہے۔ وہ 1849ء میں پیدا ہوا۔ 1923ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک شعر ہے کہ رات کے وقت دو آدمی جنگلہ کے باہردیکھتے ہیں۔ ایک شخص کیچڑ دیکھتا ہے اوردسرا شخص ستارہ :
Two men look out through the same bars one sees the mud, and one the stars.
یہی بات ایک فارسی شاعر نے زیادہ بہتر طور پر اس طرح کہی ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو فرق ہے وہ سننے کا فرق ہے۔ ایک آواز آتی ہے۔ تم اس کو دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں سمجھتا ہوںکہ وہ دروازہ کھلنے کی آواز ہے:
تفاوت است میانِ شنیدن من وتو تو غلقِ باب و منم فتح باب می شنوم
درخت میں کانٹے کے ساتھ پھول بھی ہوتاہے۔ یہی حال انسانی سماج کا ہے۔ سماجی حالات بظاہر خواہ کتنے غیر موافق ہوں، ہمیشہ اس کے اندر موافق پہلو بھی ساتھ ساتھ موجودرہتا ہے۔ ایک شخص جو چیزوں کو صرف ظاہری طور پر دیکھنے کی نگاہ رکھتا ہو، و ہ سطحی چیزوں کو دیکھے گا، اورزیادہ گہرے پہلوئوں کو دیکھنے میںناکام رہے گا۔ مگر جو شخص گہری نظر رکھتا ہو وہ زیادہ دور تک دیکھے گا اورناموافق پہلو کے ساتھ موافق پہلو کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اس دنیامیں کیچڑ بھی ہے اور یہاں ستارے بھی ہیں۔ یہ دیکھنے کی بات ہے کہ کون شخص کس چیز کو دیکھتا ہے اور کون شخص کس چیز کو۔ ایک ہی آواز ہے، مگر نادان آدمی اس کو دیکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دروازہ بند ہو گیا اور دانش مند آدمی سمجھتا ہے کہ دروازہ اس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
تمام مسائل ہمیشہ ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور ذہن کے اندر ہی ان کو ختم کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ آدمی کے اندر صحیح سوچ کا مادہ پیدا ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عقل کا امتحان ہے، جو شخص اپنی عقل کو استعمال کرے گا وہ اپنے لیے راستہ پا لے گا، اور جو شخص عقل کو استعمال نہیں کرے گا اس کے لیے بربادی کے سوا کوئی انجام مقدر نہیں۔
سمندر میں موجوں کے تھپیڑے ہیں۔ جو شخص سمندر میں اپنی کشتی چلانا چاہے وہ مجبور ہے کہ موج اور طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی کشتی مطلوبہ منزل کی طرف لے جائے۔ جنگل میں جھاڑیاں اور درندے ہیں، جو جانور جنگل میں رہتے ہیں، ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیوں اور اپنے دشمن جانوروں کے درمیان اپنے لیے زندگی کا طریقہ نکالیں۔
ایسا ہی کچھ معاملہ انسانی سماج کا بھی ہے۔ انسانوں کے اندر بھی طرح طرح کے لوگ ہیں۔ ان کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ مختلف اسباب سے ایک اور دوسرے کے بیچ میں ناخوش گواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ اونچ نیچ اور یہ فرق سماجی زندگی میں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ باقی رہیں گے۔ کسی حال میں انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے زندگی اور کامیابی کا صرف ایک ہی ممکن راستہ ہے— وہ ’’باوجود‘‘ کے اصول کو اپنی پالیسی بنائے۔ وہ مخالفتوں کے باوجود لوگوں کو اپنا موافق بنانے کی کوشش کرے۔ وہ ناخوش گواریوں کے باوجود اپنے لیے خوشگوار زندگی کا راز دریافت کرے۔ اس کے خلاف عداوتیں اور سازشیں کی جائیں تب بھی وہ اس یقین کے ساتھ آگے بڑھے کہ وہ اپنے مثبت عمل سے تمام منفی باتوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
اس دنیا میں آدمی کو کانٹے کے باوجود پھول تک اپنا ہاتھ پہنچانا ہوتا ہے۔ یہاں بیماریوں کے بے شمار جراثیم کے باوجود اپنے آپ کو تندرست اور صحت مند بنانا پڑتا ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ناموافق حالات کودیکھ کر مایوس نہ ہو۔ اورنہ شکایت اور احتجاج میں اپنا وقت ضائع کرے۔ وہ ان حقائق سے موافقت کر کے جئے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔ وہ راستہ کے ان پتھروں سے کترا کر نکل جائے جو اس کے سفر میں حائل ہو رہے ہوں۔ لوگوں کی مخالفانہ باتوں پر مشتعل ہونے کے بجائے وہ تدبیری حکمت کے ذریعہ ان سے نپٹنے کی کوشش کرے۔ وہ کم ملنے پر راضی ہو تاکہ آئندہ اس کو زیادہ دیا جائے۔ وہ دشمنی پر صبر کرے تاکہ آج جو اس کے دشمن ہیں کل وہ اس کے دوست بن جائیں۔