عمل، نہ کہ ردّعمل
امریکہ کی کمپنی آئی بی ایم (IBM) کمپیوٹر کے میدان میں اتنی آگے تھی کہ اس کو کمپیوٹر دیو (computer giant) کہا جاتا تھا۔ چند سال پہلے اس کے افسروں نے جاپان کی کمپیوٹر بنانے والی کمپنیوںکا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ آئی بی ایم اگر چھینک دے تو جاپان کے کمپیوٹر بنانے والے ہوا میں اُڑ جائیں گے:
When IBM sneezes, Japanese computer makers are blown away.
اگر ہندوستان میں کوئی ہندو مسلمانوں کے خلاف ایسی بات کہہ دے تو مسلمانوں کے تمام سطحی لیڈر اوران کے تیسرے درجے کے اخبارات فوراً احتجاج کریں گے کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے جارہے ہیں، مگر ’’انتظامیہ‘‘ اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ مسلم عوام اس ’’اشتعال انگیزی‘‘ پر مشتعل ہو کر آمادۂ پیکار ہو جائیں گے اور اس کے بعد فرقہ وارانہ فساد ہو گا جس کے بعد اس ملک کے مسلمان کچھ اور پیچھے چلے جائیں گے۔
مگر جاپانی صنعت کاروں نے اس ’’اشتعال انگیزی‘‘ پر کسی غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ وہ ہمہ تن صرف اپنے کمپیوٹر کا معیار اونچا کرنے میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ ٹائم( 17 ستمبر 1990 )کے مطابق،جاپان کمپیوٹر انڈسٹری میں ساری دنیا سے آگے بڑھ گیا۔ جاپان اس معاملہ میں آج اس پوزیشن میں ہے کہ جاپانی کمپنی فوجٹسی نے کہا کہ اس کے نئے زیادہ بڑے کمپیوٹرایک سیکنڈ میں 600 ملین ہدایات کی تعمیل کر سکتے ہیں، جب کہ امریکی کمپنی آئی بی ایم کا اچھے سے اچھا کمپیوٹر صرف 210 ملین فی سیکنڈ کی رفتار سے تعمیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:
Fujitsu said its largest new computer can perform up to 600 million instructions per second, compared with as many as 210 MIPS for IBM's Best. (p.47)
اشتعال انگیزی پر مشتعل ہو جانے کا نام ردعمل ہے، اور اشتعال انگیزی کو نظرانداز کر کے اپنے تعمیر و استحکام کے منصوبہ میں لگنے کا نام عمل۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ ’’عمل‘‘ کا ثبوت دینے والے لوگ ترقی کریں، اور ’’ردعمل‘‘ میں مصروف ہوئے لوگ برباد ہو کر رہ جائیں۔