بند ذہن

یونانی فلسفی ارسطو (384-322 ق م) نے لکھا ہے کہ گول دائرہ معیاری دائرہ ہے، اور وہ جیومٹری کی کامل صورت ہے۔ اس مفروضہ کی بنیاد پر ارسطو نے کہا کہ فطرت (نیچر) کا ہر کام چوں کہ معیاری ہوتا ہے، اس لیے فطرت آسمانی اجرام کو جن دائروں میں گھما رہی ہے، وہ صرف گول دائرہ ہی ہو سکتا ہے۔ ارسطو کا یہ نظریہ قدیم زمانہ میں تمام لوگوں کے دماغوں پر چھایا ہوا تھا۔ قدیم زمانہ میں ہیئت کے جو نظام بنائے گئے، مثلاً بطلیموس کا نظام، کوپر نیکس کا نظام، ٹائیکوبرا ہے کا نظام، سب میں یہ فرض کیا گیا تھاکہ آسمانی اجرام (نظام شمسی کے سیارے) سب کے سب خلا کے اندر گول دائروں میں گھومتے ہیں۔

کپلر (Johannes Kepler, 1571-1630) غالباً پہلا شخص ہے جس نے اس کے خلاف سوچا۔ اس نے حساب لگا کر 1609ء میں بتایا کہ مریخ کی گردش سورج کے گرد گول دائرہ میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ بیضوی مدار (elliptical orbit) میں گھومتا ہے۔ اس نے پیشین گوئی کی کہ دوسرے تمام سیارے جو سورج کے گرد گھومتے ہیں، وہ بھی بیضوی شکل ہی میں گھومتے ہیں۔ کپلر کا یہ نظریہ آج ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا ہے۔

قدیم ہیئت دان دو ہزار سال تک گول دائرہ کے تصور میں گم رہے۔ وہ سیاروں کی گردش کے بارے میں دوسرے نہج پر سوچ نہ سکے۔ اس کی وجہ ارسطو کے نظریہ کی عظمت تھی۔ اس نظریہ کو انہوں نے بلابحث ایک مسلمہ حقیقت مان لیا۔ اس بنا پر ان کا ذہن کسی اور انداز میں کام نہیں کر پاتا تھا۔

یہ صرف قدیم زمانہ کی بات نہیں، یہ ہر دور کی بات ہے۔ ہر زمانہ میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض خیالات آدمی کے دماغ پر اتنا زیادہ چھا جاتے ہیں کہ ان سے نکل کر آزادانہ طور پر سوچنا آدمی کے لیے ناممکن ہو جاتاہے۔ یہ مذہبی دائرہ میں بھی ہوتا ہے اور غیر مذہبی دائرہ میں بھی۔ یہ بند ذہن ہر قسم کی ترقی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom