موجودہ سماج
انڈین ایکسپریس (24 نومبر 1988) میرے سامنے ہے۔ اس کے صفحہ اول پر بتایا گیا ہے کہ دہلی کی ایک 26 سالہ عورت پرویش کو اس کی ساس برسارانی نے مار ڈالا۔ اس نے اپنی بہو کے اوپر مٹی کا تیل انڈیل دیا، اور پھر آگ لگا دی۔ صرف اس لیے کہ پرویش نے سسرال والوں کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے میکے سے دس ہزار روپیہ لا کر انہیں دے۔ اگلے دن دوبارہ انڈین ایکسپریس (25 نومبر 1988) کے صفحہ اول پر یہ سرخی ہے:
Another Dowry Victim
خبر کے مطابق دہلی کی 26 سالہ عورت اروین رانا کو اس کے سسرال والوں نے مار ڈالا۔ دوبارہ وجہ یہی تھی کہ سسرال والوں کے جہیز کے مطالبہ کو اس نے پورا نہیں کیا تھا۔ اس قسم کی خبریں ہر روزاخبارات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پولیس ان اموات کو جہیز کی موت (dowry death) کہتی ہے۔ جہیز کی خاطر موت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بنا پر راجیہ سبھا میں اس کی بابت سوال اٹھایا گیا۔ وزارت داخلہ کے منسٹر آف اسٹیٹ مسٹر پی چدمبرم نے ہندوستان ٹائمس (25 نومبر 1988) کے مطابق جو اعداد و شمار بتائے، وہ یہ ہیں:
1985 999 )موتیں(
1986 1319 (موتیں)
1987 1786 (موتیں)
ہندوستان کا موجودہ سماج جس وحشت و بربریت کی سطح کو پہنچ چکا ہے، یہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ آج ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں، وہ خونخوار بھیڑیوں کا سماج ہے، نہ کہ شریف انسانوں کا سماج۔ ایسی حالت میں فرقہ وارانہ فسادات پر چیخ پکار کرنا یا ان کے خلاف مذمت کے بیانات دینا، ایک ایسا فعل ہے جو احمقانہ ردعمل کے سوا کسی اور خانہ میں جانے والا نہیں۔ ایسی حالت میں کسی سمجھدار آدمی کے لیے بچائو کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ انسان نما حیوانوں کے ساتھ اعراض کرے۔ ان کی طرف سے اشتعال انگیزی کا واقعہ پیش آئے تب بھی وہ مشتعل نہ ہو۔ کوئی آدمی حیوان سے نہیں لڑتا۔ حیوان سے اعراض کیا جاتا ہے، نہ کہ جنگ۔