حل رخی پالیسی
موجودہ سال کا غالباً سب سے زیادہ اہم واقعہ سوویت روس اور امریکہ کی وہ مفاہمت ہے جس کو ٹائم (30مئی 1988) نے بجا طور پر عظیم اتحاد (grand compromise) کا نام دیا ہے۔ سوویت روس اور امریکہ دونوں دنیا کی سب سے بڑی طاقت (superpowers) شمار ہوتے ہیں۔ پچھلے 70 سال سے دونوں کے درمیان سخت رقابت جاری تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف ٹکرائو کی پالیسی پر قائم تھے۔ دونوں ملکوں کے پریس اورمیڈیا کا کام یہ تھاکہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں اور ایک دوسرے کی مذمت کرتے رہیں۔ مگر لمبے تجربہ کے بعد ، اب دونوں ٹکرائو کے بجائے صلح کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ ہتھیاروں کی دوڑ کے بجائے بات چیت کی دوڑ پراپنی توجہ لگائے ہوئے ہیں۔ وہ رقابت کے طریقہ کو چھوڑ کر مفاہمت کے طریقہ کو اپنارہے ہیں۔
سوویت روس کے ایک ذمہ دار نے اس نئی پالیسی کو حل رُخی (solution-oriented) پالیسی کا نام دیا ہے۔ اس سے پہلے دونوں کی تمام توجہ اگر اس پر جمی ہوئی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو غلط ثابت کریں تو اب انہوں نے اس قسم کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ اس پر لگا دی ہے کہ مسئلہ کا حل کیا ہے۔ یہ واقعہ جو سوویت روس اور امریکہ کے درمیان پیش آیا ہے ، اس میں دوسری قوموں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ موجودہ زمانہ میں اختلاف اور ٹکرائو کی پالیسی اتنا مہنگا سودا بن چکی ہے کہ بڑی طاقت بھی اس کا تحمل نہ کر سکیں۔ پھر چھوٹی قومیں کیوں کراس تباہ کن مشغلہ کا تحمل کر سکتی ہیں۔
حقیقت پسندی کی طرف
نکیتا خروشچوف 1958ء سے 1964ء تک سوویت روس کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے سرمایہ دار دنیا کو خطاب کرتے ہوئے اپنا مشہور جملہ (ہندوستان ٹائمس 28 جون 1988ء ) کہا تھاکہ ہم تم کودفن کردیں گے:
We will bury you.
اسی طرح امریکہ کے پریذیڈنٹ رونالڈ ریگن نے 1983ء میں سوویت روس کوشیطانی سلطنت (the evil empire) قرار دیاتھا۔ امریکی افسروں کاکہنا تھاکہ ہم اشتراکی روس کو سمندر میں دھکیل دیں گے ۔ مگر اشتراکی انقلاب کے ستر سال بعد 1988ء میں آخرکار دونوں ملکوں کو اپنا ذہن بدلنا پڑا۔ روس کے لیڈروں نے گفت و شنید کے لیے امریکہ جانا شروع کیا۔ رونالڈ ریگن نے خود ماسکو کادورہ(28 جون تا 2 جولائی 1988ء) کیا جس کووہ اس سے پہلے خارج ازامکان سمجھتے تھے۔ دورے سے پہلے واشنگٹن (ہندوستان ٹائمس 26 مئی 1988ء) میں انہوں نے کہاکہ ماسکو کے ساتھ امریکہ کا تعلق حقیقت پسندی کے تحت قائم ہونا چاہیے:
U.S. relations with Moscow must be guided by realism.
چالیس سال سے دونوں ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ (arms race) جاری تھی۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو برباد کرنے کے لیے تاریخ کے خطرناک ترین ہتھیار بنانے میں مشغول تھے ، مگر آج وہ اپنے بنائے ہوئے ہتھیاروں پر خود ہی پابندی لگا رہے ہیں ، حتیٰ کہ اس کو ضائع کررہے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (3 اگست 1988ء) سیکشن 2 صفحہ 1 پر ایک خبر ہے جس کی سرخی یہ ہے:
USSR destroys 4 missiles
(سوویت روس اپنے چار میزائل کو برباد کرتاہے)۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ 2 اگست 1988ء کو سوویت روس نے سریوزیک (Saryozek) میں چار چھوٹی رینج کے میزائل (OTR-22) برباد کر دیے۔ یہ واقعہ مختلف ملکوں کے مشاہدین کی موجودگی میں ہوا جن میں ہندوستان اور امریکہ کے مشاہدین بھی شامل تھے۔ میزائل کے خاتمہ کا یہ عمل اس معاہدہ کے تحت کیا گیا ہے جو ریگن اور گورباچوف کے درمیان ہوا ہے۔
معاہدہ کے تحت سوویت روس اگلے تین سال میں اپنے 1752 میزائل کو ضائع کرے گا جن کا رینج 500 کلومیٹر سے لے کر 5500 کلومیٹر تک ہے۔ امریکہ ، حسب معاہدہ اپنے اسی قسم کے 859 میزائل کو ضائع کرے گا۔
روس اور امریکہ کی پالیسی میں اس ڈرامائی تبدیلی کا راز یہ ہے کہ ہتھیار سازی اور عسکری فوقیت حاصل کرنے کی کوشش میں دونوں ملکوں کی ترقی رک گئی۔ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کی دوڑ (arms race) اور ایک دوسرے کے خلاف مذمت رخی (blame-oriented) پالیسی میں نصف صدی کی مدت گزارنے کے بعد ان پرکھلا کہ اس منفی طریق کار سے وہ کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے۔ جب کہ دوسرے کی کاٹ کی کوشش میں دونوں نے خود اپنے آپ کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا۔ چنانچہ اب انہوں نے سابقہ پالیسی کو ترک کر کے حل رخی (solution-oriented) پالیسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکہ اورروس
امریکہ نے اپنی ساری طاقت جنگی مشین تیار کرنے میں لگا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اقتصادی میدان میں خود اپنے مفتوحہ ملک جاپان سے بھی پیچھے ہو گیا۔ امریکہ آج سب سے بڑا قرض دار ملک ہے۔اس کے اوپر 400 بلین ڈالر کا خارجی قرضہ ہے ، جب کہ جاپان آج سب سے بڑا دائن ملک ہے۔ اُس نے دنیاکو 240 بلین ڈالر قرض دے رکھا ہے۔ امریکی ڈالر جو پچھلی نصف صدی سے اقتصادی دنیاکا شہنشاہ بنا ہواتھا ، اس کی یہ حیثیت بری طرح مجروح ہو گئی۔ حتیٰ کہ یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیاامریکہ اپنی بڑی طاقت کی حیثیت (Super power status) کو برقرار رکھ سکتا ہے (تفصیل کے لیے: ٹائم 4 جولائی 1988ء)
ڈاکٹر ہنری کسنجر نے ایک انٹرویو (ٹائمس آف انڈیا 9اگست 1988ء) میں کہا کہ نئی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پرکچھ نئی طاقتیں ابھری ہیں۔ مثلاً چین اور ہندوستان۔ جاپان دن بدن زیادہ سے زیادہ طاقت ور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی حالت میں امریکہ کو دوسرے ملکوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کو چھوڑنا پڑے گا۔ امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئے طاقتی مراکزکے ساتھ موافقت کرے:
US will have to adjust with new centres.
19 ویں آل سوویت پارٹی کانفرنس جون 1988ء کے آخری ہفتہ میں ماسکو میں ہوئی جس میں پورے ملک سے پانچ ہزار ڈیلی گیٹ شریک ہوئے۔ اس موقع پر روسی وزیر اعظم گوربا چوف نے ساڑھے تین گھنٹہ کی تقریرکی۔ اس طویل تقریر میں انہوں نے نہایت شدت کے ساتھ خود تنقیدی (self-criticism) کی وکالت کی۔ان کی اس تقریر کاملخص متن ٹائمس آف انڈیا (29 جون 1988ء) صفحہ 11 پر دیکھا جاسکتا ہے۔
مسٹر کوئٹن پیل (Quentin Peel) ایک اخبار نویس کی حیثیت سے خود ماسکو کی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ انہوں نے روسی لیڈروں کی تقریریں سنیں اور ان سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے روسی وزیر اعظم مسٹر گوربا چوف کی ساڑھے تین گھنٹہ کی تقریر کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
The message seemed plain enough: the party would have to renounce its stifling role in the administration and economy of the country. Power and privilege would have to be curbed, science and initiative given their head, if the Soviet Union were to complete with the rest of the world, let alone be a superpower.
پیغام بظاہر بالکل سادہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کو انتظامیہ اور اقتصادیات اورملک کے اوپر اپنے سخت کنٹرول کو چھوڑنا ہو گا۔ طاقت اور استحقاق پر پابندی لگانی ہو گی۔ سائنس اور محرک کو آگے بڑھانا ہو گا ، اگر سوویت یونین کو بقیہ دنیا کامقابلہ کرناہے ، سپرپاورکی حیثیت کو باقی رکھناتودرکنار۔
پرسترائیکا
ان حالات نے روسی وزیر اعظم مسٹر میخائل گورباچوف کو مجبور کیا کہ وہ حقیقت کا اعتراف کریں۔ انہوں نے اشتراکی برتری کامزاج ترک کرتے ہوئے روس میں تبدیلیاں لانے کی ایک نئی مہم شروع کر دی جس کووہ دو لفظ میں بیان کرتے ہیں۔ ایک گلاس ناسٹ (glasnost) یہ ایک روسی لفظ ہے جس کے معنی کشادگی(openness) کے ہیں۔ دوسرے، پراسترائیکا (Perestroika) اس کا مطلب روسی زبان میں تنظیم نو (re-structuring) ہوتا ہے۔ پرسترائیکا کے نام سے مسٹر گورباچوف کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ جس کانام انگریزی میں اس طرح ہے:
Perestroika: New Thinking for our Country and the World.
اس تحریک کے تحت روس کے سابق اشتراکی ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ اس میں مذہبی آزادی سے لے کر اپنے روایتی دشمن امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تک شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں نہایت سبق آموز رپورٹیںاخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک رپورٹ وہ ہے جو لاس اینجلس اور واشنگٹن پوسٹ نیوز سروس کے تحت اخبارات میں آئی ہے۔ ہندوستان ٹائمس (16 جنوری 1988ء) نے اس کو مسٹررائے گٹ مین (Roy Gutman) کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان حسب ذیل ہے:
Kremlin, White House now realistic. (p. 20)
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد روس اور امریکہ کے تعلقات میں ایک تاریخی تغیر (Historic shift) آیا ہے۔ دونوں ملکوں میں نئی سوچ (New thinking) پیدا ہوئی ہے۔ کریملن اوروہائٹ ہائوس دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں حقیقت پسند بن رہے ہیں ۔ یہ رپورٹ ہم یہاں علیحدہ صفحہ پرنقل کررہے ہیں۔
روس کے ڈپٹی وزیر خارجہ (Alexander Bessmertnykh) جو اپنے ملک کے سفیرکی حیثیت سے 12 سال تک امریکہ میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے نیوز ڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ملکوں میں نئی سوچ (new thinking) پیدا ہوئی ہے۔ دونوں کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی (dramatic change) اور تاریخی فرق (historic shift) آ رہاہے۔ امریکی ذمہ دار اس سے پہلے کہاکرتے تھے کہ ہم کمیونزم کے پھیلائو کوروک دیں گے ، ہم ان کو سمندر میں غرق کر دیں گے۔ مگر اب انہوں نے جان لیا ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ اس سے پہلے دونوں ملک ایک دوسرے کی مذمت کرنے اور ایک دوسرے کی کاٹ کرنے میں لگے رہتے تھے۔ مگر یہ پالیسی سراسر بے فائدہ رہی۔ اب دونوں طرف کے لوگ حقیقت پسند بن رہے ہیں۔ اب ہماری ٹیم اور ان کی ٹیم دونوں حل رخی ذہن رکھنے والے ہیں:
That team and our team are solution-oriented.
پرستروئیکا کے مقاصد اور نشانے کیا ہیں ، اس کی وضاحت مسٹر گوربا چوف نے مخصوص اشتراکی زبان میں اس طرح کی ہے:’’اور زیادہ جمہوریت اور زیادہ سوشلزم، محنت کش انسان کے لیے اور زیادہ بہتر زندگی ، قوم کے لیے اور زیادہ عظمت درفعت اور ثروت۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’پرستروئیکا‘‘ سوشلزم سے واپسی ہے ، نہ کہ سوشلزم کی طرف ’’اگلا قدم‘‘۔ کیوں کہ مارکس اور لینن کی تشریح کے مطابق ، سوشلزم کی ترقی سرمایہ داری کی موت پر ہونے والی تھی۔ سوشلزم کی ہر پیش قدمی سرمایہ دارانہ نظام کی پسپائی کے ہم معنی تھی۔ مگر آج سوویت روس ، گوربا چوف کی قیادت میں ، سرمایہ دارانہ نظام سے مفاہمت کر رہا ہے ، بلکہ وہ اس کی قدروں کو اپنے یہاں رائج کرنے میں ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھ رہا ہے۔
پرستروئیکا سوشلزم کے اصولوں کی صداقت کا ثبوت نہیں ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دنیا میں کامیابی حقیقتوں کے اعتراف کے بغیر ممکن نہیں۔ ریگن کے الفاظ میں ، اس زمین پر ہمیں تمام اچھے اور برے لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔ حقیقت پسندی اور مفاہمت ہی اس دنیا میں ترقی اور کامیابی کا راز ہے۔
نتیجۂ بحث
روس اور امریکہ کے تعلقات میں یہ تبدیلی بلاشبہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔ جدید تاریخ کے اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹکرائو کی پالیسی آخری حد تک اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ اپنے حریف پر الزام لگانا، اس کی کاٹ میں لگے رہنا ، اس کے ساتھ مقابلہ آرائی کرنا ، روس اور امریکہ جیسی طاقتوں کے لیے بھی سراسر بے فائدہ ہے ، کجا کہ دوسری کمزور قومیں اس قسم کی منفی پالیسی اختیار کر کے کسی واقعی نتیجہ کی امید کر سکیں۔
خواہ فرد کا معاملہ ہو یا قوم کا معاملہ ، دونوں کے لیے مسئلہ کا حل اسی طریق کار میں ہے۔ اس دنیا میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی دوسرے کی تخریب کرنے کے بجائے اپنی تعمیر میں لگ جائے۔ مسئلہ کو لے کر اس کے نام پر چیخ پکار کرنا یا حریف کے مقابلہ میں لڑائی چھیڑنا ، صرف اپنے وقت اور قوت کو ضائع کرنا ہے۔ اس کے سوا اس کا اور کوئی انجام نہیں۔ ایک لفظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی اور کامیابی کا راز حل رُخی پالیسی میں ہے ، نہ کہ مذمت رخی (blame-oriented) پالیسی میں۔
Kremlin, White House Now Realistic
BY Roy Gutman
MOSCOW : A high Soviet official, ascribing a dramatic change in approach to the Reagan Administration, says US policy-makers now constitute a Pragmatic ''team'' that is ''solution-oriented'' and can work well with Mr. Mikhail S. Gorbachev's new foreigen policy.
''you have realistically-minded people on both sides at the moments, in the Kremlin and in the White House, That team and our team... are solution-oriented,'' said Mr. Bessmertnykh, who oversees Soviet relations with the United States.
Mr. Bessmertnykh, a veteran diplomat who served 12 years in the United States and is Known as a leading exponent of pragmatism, emphasised that the summit affirmed a historic shift in Us-Soviet relation.
He asserted that an agreement on a treaty sharply cutting offensive nuclear arms is still possible this year, despite a number of unresolved issues.
Mr Bessmertnykh also claimed that Mr Gorbachev's new offer on conventional forces was ''the most pratical offer ever made.''Under the offer, NATO and the Warsaw Pact would exchange data on each over's forces,verify the data on-site and reduce deployments where one side had superiority. He said Mr give the idea serious consideration.
Mr Bessmertnykh said changed attitudes on both sides had facilitated progress toward setting , regional disputes where the United States and Soviet Union had been an influence.These disputes where the involve such places as Afghanistan, the Middle East , the Persian Gulf, Southern Africa and Kampuchea. In the Soviet Union, the attitude change encompasses Mr Gorbachev's ''new thinking'' in foreign policy, which calls for political solutions based on a '' balance of interests''of all the involved parties, and in the United States, a readiness by the Reagan Administration to discuss issues on this basis.
When Mr Reagan came to office, the administration used phrases such as ''we shall draw the line, we shall go to the source, we shall stop the advance of communism...''
But eight years later, ''look at the situation'', he said, ''the fleet was concentrated in the Persian Gulf. What was the result?'' Mr Bessmertnykh said, ''Practical minded people'' in the administration ''realise the world has changed. You can't do it any more that way.''It's impossible.''
Just three years ago, when Mr reagan and Mr. Gorbachev met in Geneva at their first summit, the US aim in the Middle East was '' Pushing the Soviet Union into the sea from the Middle East,'' he said. The Administration has dropped this'' arrogant but very unrealistic policy, ''Bessmertnykh said.
(The Los Angeles Times Washington Post News Service)