اتھاہ امکانات
افغانستان کے سفر(اکتوبر1988) میں ایک دلچسپ چیز دیکھنے کو ملی جو اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھی تھی۔ اس کو عام زبان میں فش(fish) کہا جاتا ہے۔ یہ امریکی ساخت کے اس خطرناک ہتھیار کا توڑ ہے، جس کو اسٹنگر(stinger) کا نام دیا گیا ہے۔ فش کا حربہ استعمال کرنے کو فشنگ(fishing) کہتے ہیں۔
افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلہ(دسمبر1979) کے بعد روسیوں اور افغان مجاہدین کے درمیان مستقل جنگ شروع ہوگئی ۔ افغان مجاہدین صرف زمینی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔ جب کہ روسیوں کا حال یہ تھا کہ وہ ہیلی کاپٹر پر اڑ کر ان کے ٹھکانوں کو اپنے بم کا نشانہ بناتے تھے۔
یہ بے حد نازک صورت حال تھی۔ افغانی مجاہدین اگرچہ گن کے ذریعے جہازوں کو مارنے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر گن سے نکلی ہوئی گولی بالکل سیدھی جاتی ہے۔ اس لیے ایک ایسی چیز جو تیز رفتاری کے ساتھ فضا میں متحرک ہو، اس کو گولی کا نشانہ بنانا بے حد دشوار ہے۔ چنانچہ افغانی مجاہدین کوشش کے باوجود، روس کے بمبار جہازوں کو مار گرانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔
اس وقت امریکہ نے افغانی مجاہدین کو جدید قسم کا اینٹی ائیرکرافٹ میزائل سپلائی کیا، جس کو اسٹنگر(stinger) کہا جاتا ہے۔ اب افغانی مجاہدین کو روس کے بمبار جہازوں پر واضح بالادستی حاصل ہوگئی۔ وہ جب بھی فضا میں روسی جہاز دیکھتے تو اس پر اسٹنگر داغ دیتے، اور اسٹنگر پیچھا کرکے جہاز کو مارتا۔ کیوں کہ اسٹنگر عام گولے کی طرح بالکل سیدھا نہیں جاتا۔ وہ جہاز کے رخ پر اپنا رخ بدلتا ہوا جاتا ہے اور اس کو بہرحال مار کر رہتا ہے۔
پہلے اگر افغانی مجاہدین دفاعی حیثیت میں تھے تو اب روسی فضائیہ دفاعی حیثیت میں آگیا۔ مگر اس دنیا میں امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی ایجاد اگلی زیادہ بڑی ایجاد کے امکان کو ختم نہیں کرتی۔ چنانچہ روسیوں نے بہت جلد اسٹنگر کا توڑ دریافت کر لیا۔ اسی توڑ کا نام’’فش‘‘ ہے۔ روسیوں نے معلوم کیا کہ اسٹنگر کی ٹکنیک یہ ہے کہ وہ گرمی کی طرف بھاگتا ہے۔ چونکہ اس وقت فضا میں سب سے زیادہ گرم چیز ہوائی جہاز کا انجن ہوتا ہے اس لیے وہ اس کا پیچھا کرکے انجن سے ٹکرا جاتا ہے، اس طرح وہ جہاز کو برباد کر دیتا ہے۔
روسیوں نے اسٹنگر کے توڑ میں’’فش‘‘ کو دریافت کیا۔ یہ خاص قسم کا کیمیائی مادہ ہے جو ہوائی جہاز سے باہر آتے ہی جل اٹھتا ہے، اور تیز شعلہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس شعلہ کی گرمی ہوائی جہاز کے انجن کی گرمی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ہوائی جہاز کی طرف چلایا ہوا اسٹنگر ہوائی جہاز سے ٹکرانے کے بجائے شعلہ(فش) کی طرف جا کر اس سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس طرح ہوائی جہاز اس کی زد سے بچ جاتا ہے۔
اس واقعہ میں ایک بے حد اہم نکتہ ہے، اور وہ ہے فریق ثانی کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا۔ مقابلہ کی اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو فریق ثانی کی کمزوری کی دریافت کر سکیں اور اس سے فائدہ اٹھانے والی اہلیت کا ثبوت دیں۔
روسیوں نے اس معاملہ میں اسی اہلیت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے اسٹنگر کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا کہ وہ اپنے اندر انسانی عقل نہیں رکھتا۔ اس کی ضرب شعوری ضرب نہیں ہے، وہ ایک میکانکی ضرب ہے۔ وہ ایک مادی چیز ہونے کی وجہ سے ہوائی جہاز کو نہیں جانتا۔ وہ ’’گرمی‘‘ کو نشانہ بنانا جانتا ہے ، نہ کہ’’ہوائی جہاز‘‘ کو۔ روسیوں نے جیسے ہی اس راز کو دریافت کیا، انہوں نے گویا آدھی جنگ جیت لی۔ اسٹنکر کے مقابلہ میں فش کا استعمال اسی تدبیر کی ایک کامیاب مثال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا توڑ ہے۔ یہاں خطرات کے مقابلہ میں ہمیشہ امکانات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ بشرطیکہ مسائل پیش آنے کے بعد آدمی اپنی ہمت کو نہ کھوئے۔ وہ خدا کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے خطرہ کا توڑ دریافت کر سکے۔
یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے:لَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 9541)۔ یعنی ایک مشکل دو آسانی پر ہر گز غالب نہیں آ سکتی۔ دوسرے الفاظ میں، اس دنیا میں اگر عسر(مشکل) ایک ہے، تو اس کے مقابلہ میں یُسر(آسانی) کی مقدار اس کا دگنا ہے۔ یہاں اگر ایک راستہ میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے تو وہیں دوسرا راستہ آگے بڑھنے کے لیے کھلا ہوا ہوتا ہے۔
ایسی حالت میں فریاد اور احتجاج نہ صرف بے فائدہ ہے، بلکہ وہ خود خدا کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ خدا کی خدائی کی تصغیر ہے۔ فریاد واحتجاج کرنے والا شخص بیک وقت دو نقصان کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی ناکامی کو دوبارہ کامیابی بنانے کے امکان کو استعمال کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی نظر میں اس بات کا مجرم قرار پاتا ہے کہ اس نے ایک کامل دنیاکو ناقص دنیا بتانے کی جسارت کی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا اتھاہ امکانات کی دنیا ہے۔ ماضی کی کوئی کوتاہی مستقبل کے مواقع کو برباد نہیں کرتی۔ دشمن کی کوئی کارروائی ایک نئی برترکاروائی کے امکان کو ختم نہیں کرتی۔ ہر نقصان کے بعد یہ موقع بدستور باقی رہتا ہے کہ آدمی ازسرنو کوشش کرکے دوبارہ اپنے آپ کو کامیاب بنا لے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ پیچھے کی طرف دیکھنے کے بجائے آگے کی طرف دیکھے۔ وہ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانے کی کوشش کرے۔ وہ ہاری ہوئی بازی کو محنت اور عمل کے ذریعے ازسر نو جیت لے۔