بچت سے اضافہ
کچھ مادے ایسے ہیں جو بجلی کی متحرک کرنٹ کو اپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں۔ ان کو کنڈکٹر (Conductor) کہا جاتا ہے۔ تانبہ، لوہا اور المونیم وغیرہ اسی قسم کے کنڈکٹر ہیں۔ چنانچہ بجلی کو پاور ہائوس سے دوسرے مقامات پر بھیجنے کے لیے انہیں مادوں کے تار بنائے جاتے ہیں۔ ان تاروں پر بجلی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جاتی ہے۔
اس روانگی کے دوران یہ مادے گرم ہو کر بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں تقریباً پچاس فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ یعنی پاور ہائوس میں جتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے، عملاً اس کا صرف آدھا حصہ استعمال ہوتا ہے۔ بقیہ آدھا حصہ غیر استعمال شدہ طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔
ڈچ سائنس دان ایچ کے اونز (Heike Kamerlingh Onnes, 1853-1926) نے1911ء میں ایک تجربہ کے دوران پایا کہ بعض مادے ایسے ہیں جن میں یہ قدرتی صفت ہے کہ ایک خاص درجۂ حرارت پر پہنچنے کے بعدوہ مطلق صفر (Absolute Zero) کی سطح پر آ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی قوت مدافعت مکمل طور پر ختم کر کے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ بجلی کی روانی میں رکاوٹ ڈالے بغیر اس کی ترسیل کرسکیں۔ ایسے مادہ کوسپرکنڈکٹر اور اس طریقہ کوسپرکنڈکٹویٹی (Superconductivity) کا نام دیا گیا اور اس پر ریسرچ شروع کر دی گئی۔ اب تقریباً 80 برس بعد یہ تحقیق اپنی آخری منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ سپرکنڈکٹر مادے کو استعمال کرکے بجلی کی ترسیل کی جائے اور اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ بجلی کی صد فیصد مقدار استعمال ہو سکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں میں مزید اضافہ کیے بغیر قابل استعمال بجلی کی مقدار دگنی ہو جائے گی۔ اس نئی دریافت نے اس قدیم مقولہ کو واقعہ بنا دیا ہے کہ:
Electricity saved is electricity generated
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ بچت بھی ایک قسم کی آمدنی ہے۔ آپ اگر اپنی آمدنی میں اضافہ نہ کر سکتے ہوں تو اپنے خرچ میں کمی کیجیے۔ اپنے خرچ میں کمی کر کے آپ اپنی آمدنی کو بڑھاسکتے ہیں۔ آمدنی بڑھانے کا یہ ایک ایسا نسخہ ہے جو ہر آدمی کے اختیار میں ہے۔