زندگی کااصول
ایک شخص موٹر کار کس لیے خریدتا ہے۔ تیز رفتار سفر کے لیے۔ کار کا مقصد چلنے کی رفتار کو دوڑنے کی رفتار بنانا ہے۔ مگر وہی کار کار ہے جو دوڑنے کے ساتھ رکنا بھی جانتی ہو۔ ایک کار بظاہر نہایت عمدہ ہو۔ مگر اس کے اندر روکنے کا نظام(بریک) نہ ہو تو کوئی بھی شخص ایسی کار کی خریداری قبول نہیں کر سکتا۔سڑک کے سفر کا جو اصول ہے، وہی زندگی کے سفر کا اصول بھی ہے۔ زندگی کا وسیع تر سفر کامیابی کے ساتھ وہی لوگ طے کر سکتے ہیں جو چلنے کے ساتھ رکنا بھی جانتے ہوں۔ جو لوگ صرف چلنے اور اقدام کرنے کی اصطلاحوں میں سوچنا جانیں، رکنے اور ٹھہرنے کا لفظ جن کی لغت میں موجود نہ ہو، وہ گویا ایسی موٹر کار کی مانند ہیں جس کے اندر بریک نہیں۔ اور جس کار کے اندر بریک کا نظام نہ ہو وہ ہمیشہ کھڈ میں جا کر گرتی ہے، ایسی کار کے لیے منزل پر پہنچنا مقدر نہیں۔
اگر آپ کا یہ مزاج ہو کہ کوئی شخص آپ کے خلاف کوئی بات بول دے تو آپ اس سے لڑ جائیں۔ کوئی شخص آپ کی امیدوں کو پورا نہ کر رہا ہو تو آپ اس کو اپنا حریف سمجھ کر اس سے مقابلہ آرائی شروع کر دیں تو گویا آپ بغیر بریک کی کار ہیں۔ آپ کا حال یہ ہے کہ جہاں چپ رہنا چاہیے وہاں بولتے ہیں، جہاں اپنے قدموں کو روک لینا چاہیے وہاں آپ تیز رفتاری کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے ہیں ایسے آدمی کا انجام اس دنیا میں صرف بربادی ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنی طاقت کو منفی کارروائیوں میں برباد ہونے سے بچائے۔ جو راہ کے کانٹوں سے الجھے بغیر اپنا سفر جاری رکھے۔ شریعت کی زبان میں اسی کو اعراض کہا جاتاہے۔ اور اعراض بلاشبہ زندگی کا ایک ناگزیر اصول ہے۔ جس شخص کا ایک سوچا سمجھا مقصد ہو، جو اپنے طے کیے ہوئے منصوبہ کی تکمیل میں لگا ہوا ہو، وہ لازماً اعراض کا طریقہ اختیار کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مقصد کو اپنے سامنے رکھے گا۔ البتہ جن لوگوں کے سامنے کوئی متعین مقصد نہ ہو وہ اعراض کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے، وہ معمولی معمولی باتوں پر دوسروں سے لڑ جائیں گے۔ وہ سمجھیں گے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، حالانکہ وہ وہ صرف اپنی قوتوں کو ضائع کر رہے ہوں گے۔