مجرم کون
ایک آدمی کو گلاب کا پھول توڑنا تھا۔ وہ شوق کے تحت تیزی سے لپک کر اس کے پاس پہنچا اور جھٹکے کے ساتھ ایک پھول توڑ لیا۔ پھول تو اس کے ہاتھ میں آ گیا، مگر تیزی کے نتیجہ میں کئی کانٹے اس کے ہاتھ میں چُبھ چکے تھے۔ اس کے ساتھی نے کہا کہ تم نے بڑی حماقت کی۔ تم کو چاہیے تھا کہ کانٹوں سے بچتے ہوئے احتیاط کے ساتھ پھول توڑو۔ تم نے احتیاط والا کام بے احتیاطی کے ساتھ کیا اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارا ہاتھ زخمی ہو گیا۔
اب پھول توڑنے والا غصہ ہو گیا۔ اس نے کہا کہ سارا قصورتو ان کانٹوں کا ہے۔ انہوں نے میری ہتھیلی کو اور میری انگلیوں کو خون آلود کیا، اور تم اُلٹا مجھ کو مجرم ٹھہرا رہے ہو۔ اس کا ساتھی بولا: میرے دوست، یہ درخت کے کانٹوں کا معاملہ نہیں، یہ نظامِ قدرت کا معاملہ ہے۔ قدرت نے دنیا کانظام اسی طرح بنایا ہے کہ یہاں پھول کے ساتھ کانٹے ہوں۔ میری اور تمہاری چیخ پکار ایسا نہیں کرسکتی کہ اس نظام کو بدل دے۔ پھول کے ساتھ کانٹے کا یہ نظام تو بہرحال اسی طرح دنیا میں رہے گا۔ اب میری اور تمہاری کامیابی اس میں ہے کہ ہم اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تدبیر تلاش کریں۔ اور وہ تدبیر یہ ہے کہ کانٹوں سے بچ کر پھول کو حاصل کریں۔ کانٹوں میں نہ الجھتے ہوئے پھول تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
پھول کے ساتھ کانٹے کا ہونا کوئی سادہ بات نہیں، یہ فطرت کی زبان میں انسان کے لیے سبق ہے۔ یہ نباتاتی واقعہ کی زبان میں انسانی حقیقت کا اعلان ہے۔ یہ اس تخلیقی منصوبہ کا تعارف ہے۔ جس کے مطابق موجودہ دنیا کو بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں وہی اقدام کامیاب ہوتا ہے جو اعراض کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے بنایا گیا ہو۔
جہاں بچنے کی ضرورت ہو وہاں الجھنا، جہاں تدبیر کی ضرورت ہو وہاں ایجی ٹیشن کرنا صرف اپنی نالائقی کا اعلان کرنا ہے۔ خدا نے جس موقع پر اعراض کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہو، وہاں اُلجھنے کا طریقہ اختیار کرنا خود اپنے آپ کو مجرم بنانا ہے، خواہ آدمی نے دوسروں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ڈکشنری کے تمام الفاظ دہرا ڈالے ہوں۔