اعلیٰ کامیابی
1986-87 کے سول سروس کے امتحانات میں ابتدائی جانچ(Preliminary test) میں پورے ملک سے تقریباً94 ہزار امیدوارشریک ہوئے۔ ان میں سے صرف دس ہزار امیدواروں کو تحریری امتحان(Main examination) میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا گیا۔ اس مرحلہ کے بعد سترہ سو امیدواروں کو انٹرویو کے لیے چنا گیا۔ انٹرویو کے بعد جن امیدواروں کو آخری طور پر اعلیٰ ملکی ملازمتوں کا اہل قرار دیا گیا، ان کی تعداد855 تھی۔
ان امتحانات کے آخری نتیجہ کا اعلان8 جون1987ء کے اخبارات میں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ کامیاب ہونے والوں کی فہرست بھی شامل تھی۔ اس وقت لوگوں نے دیکھا کہ اتنی لمبی فہرست اور اتنی طویل جانچ کے بعد سارے ملک سے جو لوگ سول سروسز کے اہل قرار دیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلا نام’’عامر سبحانی‘‘ کا ہے۔ اس اعلیٰ ملکی امتحان میں عامر سبحانی نے ٹاپ کا درجہ حاصل کیا تھا۔ یہ تنہا واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین کامیابی کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ کوئی تعصب یا کوئی جانبداری ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔
ہندوستان کی کل آبادی میں مسلمان تقریباً12 فیصد ہیں۔ اس نسبت سے 855 کی فہرست میں کم ازکم ایک سو مسلمانوں کا نام ہونا چاہیے تھا۔ مگر عملاً صرف گیارہ مسلمان کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکے ہیں۔ عام طور پر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ تعصب ہے۔ مگر سول سروس کے امتحانات کے طریقہ پر غور کیجیے تو یہ بات بالکل بے بنیاد معلوم ہوگی۔
سول سروس کے تحریری امتحانات میں جواب کی کاپیوں پر امیدواروں کے نام لکھے ہوئے نہیں ہوتے۔ بلکہ صرف کوڈ نمبر درج ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ممتحن کے لیے یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں کہ امیدوار کا تعلق کس فرقہ سے ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ انٹرویو کا ہے۔ انٹرویو بورڈ پانچ سے سات ممبران پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر ممبر اپنے مضمون کا ایکسپرٹ ہوتا ہے۔ اگر یہ ممبران متعصب اور تنگ نظر ہوں تو کوئی مسلمان نہ آئی اے ایس میں چنا جائے اور نہ ٹاپ کر سکے۔ تاہم اگر بالفرض ان میں کسی درجہ میں تعصب کا وجود فرض کیا جائے تب بھی ان کا تعصب اس معاملہ میں فیصلہ کن نہیں بن سکتا۔
اس کی وجہ ان امتحانات کا نظام ہے۔ تحریری امتحانات پورے 1800 نمبر کے ہوتے ہیں۔ جب کہ انٹرویو میں صرف250 نمبر ہوتے ہیں۔ اب اگر بالفرض تعصب کی بنیاد پر انٹرویو میں کسی امیدوار کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو محض انٹرویو میں اچھا نمبر حاصل نہ کرنے کی وجہ سے اس کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا بشرطیکہ تحریری امتحان کے پرچوں میں اس نے اچھے نمبر حاصل کیے ہوں۔ کیوں کہ جب کامیاب امیدواروں کی آخری فہرست بنائی جاتی ہے تو تحریری امتحانات اور انٹرویو دونوں میں حاصل کردہ نمبروں کو یکجا کرکے شمار کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ صرف انٹرویو میں حاصل کردہ نمبر کی بنیاد پر فیصلہ کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں ایک سبق آموز بات یہ ہے کہ عامر سبحانی صاحب نے تحریری امتحانات میں مجموعی طور پر 64 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں، جب کہ انٹرویو میں ان کو 74 فیصد نمبر ملے ہیں۔ یعنی انٹرویو میں 10 فیصد زیادہ۔ مسٹر سبحانی سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سول سروس کے امتحان کے لیے کس طرح تیاری کی تھی۔ اس کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چھ مہینہ تک وہ روزانہ12 سے 14 گھنٹہ تک مطالعہ میں صرف کرتے تھے۔ اس سے پہلے بھی انہیں آدھی رات تک پڑھنے کی عادت تھی۔ وہ نصابی کتابوں کے علاوہ انڈین اینڈ فارن ریویو، یوجنا اور انڈیا ٹو ڈے کا برابر مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے علاوہ وہ دہلی سے نکلنے والے کئی انگریزی اخبارات کو روزانہ پوری طرح پڑھتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسٹر عامر سبحانی کی غیر معمولی کامیابی کا راز غیر معمولی محنت ہے۔ وہ اپنی محنت کی وجہ سے میٹرک سے لے کر ایم اے تک ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے تجربہ کی روشنی میں آئی اے ایس کے امتحان میں شریک ہونے والے نوجوانوں کو کیا مشورہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: سخت محنت اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی پوری جدوجہد۔
(8 جون1987 کے انگریزی اخبارات، نئی دنیا30 جون1987، بلٹز15 اگست1987)
ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے عمل کے دو میدان ہیں۔ ایک مطالبہ اور احتجاج کا میدان اور دوسرا محنت اور جدوجہد کا میدان۔ ہمارے لیڈر پہلے میدان میں سرگرمی کی علامت ہیں۔ اور عامر سبحانی جیسے افراد دوسرے میدان میں سرگرمی کی علامت۔ ہمارے تمام لیڈر پچھلی نصف صدی سے ٹکرائو کے راستے پر چل رہے ہیں۔ وہ فریق ثانی کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس کے خلاف لامتناہی احتجاج کی مہم جاری کیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہماری قوم میں عامر سبحانی جیسے افراد بھی ہیں جنہوں نے فریق ثانی کی طرف سے نظریں ہٹا کر اپنی محنت پر بھروسہ کیا، وہ اپنے ذاتی امکانات کو برروئے کار لانے میں منہمک ہوگئے۔
اب عملی نتیجہ کے اعتبار سے دیکھیے تو لیڈر صاحبان کا طریقہ مسلم امت کے لیے سراسر بے نتیجہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس راستہ سے ملت کو ایک فیصد بھی کوئی مثبت فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، جو لوگ عامر سبحانی والے راستہ پر چلے وہ ہمیشہ کامیاب رہے۔ ان کی کوششوں سے ہمیشہ مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔
یہ دو قسم کی مثالیں واضح طورپر بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں کیا کرنا چاہیے۔ انہیں لیڈروں کے بتائے ہوئے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دینا چاہیے اور ’’عامر سبحانی‘‘ والے طریقہ کو مکمل طور پر اختیار کر لینا چاہیے۔ یہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر مسلمان کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔