حقیقت پسندی

ٹائم میگزین (13 فروری 1989) کے سرورق پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے: دوبارہ ساتھی (comrades again) جیسا کہ معلوم ہے ، چین اور روس دونوں اگرچہ کمیونسٹ ملک ہیں ، مگر ان کے درمیان کم از کم 30 سال سے باہمی عداوت چلی آ رہی تھی۔ اب دونوں ملک ایک دوسرے سے قریب آ رہے ہیں۔ ٹائم کے مذکورہ شمارہ میں اسی کو کور اسٹوری بنایا گیا ہے۔ اندر مضمون کے اوپر اس کی سرخی یہ ہے کہ ایک شگاف کی مرمت ، عداوت کا دور ختم ہو رہا ہے:

To mend a rift — An era of hostility is  coming to an end.

چین اور روس کے درمیان 4500 میل کی مشترک سرحد ہے۔ مگر پچھلے تین دہائیوں سے دونوں کے درمیان تعلقات خراب تھے۔ سابق روسی وزیر اعظم نکیتا خروشچیف نے 1959ء میں امریکہ سے واپس آتے ہوئے چین میں مختصر قیام کیا تھا اور ماوزے تنگ سے ملاقات کی تھی جو ناخوش گواری پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کا کوئی ذمہ دار شخص ایک ملک سے دوسرے ملک میں نہیں گیا۔ شدید دشمنی کے لمبے وقفہ کے بعد فروری 1989ء میں پہلی بار سوویت روس کے وزیر خارجہ (Eduard Shevardnadze) نے چینی راجدھانی بیجنگ کا سفر کیا۔ اس سفر کا مقصد امن اور ترقی (peace and development) بتایا گیا تھا۔ اس سفر میں جو باتیں طے ہوئیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ روسی وزیر اعظم میخائل گوربا چوف جلد ہی چین کا دورہ کریں گے (ٹائم 13 فروری 1989ء) ۔

دو حریف ملکوں میں اس خلافِ توقع تبدیلی کے بارہ میں ایک چینی افسر نے کہاکہ بیجنگ اور ماسکو کو اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے ، اس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے:

The difficulties that Beijing and Mascow now confront have brought us closer to one another. (p. 7)             

ایک روسی افسر نے یہی بات زیادہ کھل کر ان لفظوں میں کہی کہ ہم اس مشترک سوچ کے بہت قریب آ چکے ہیں کہ کس طرح دونوں ملکوں میں نئے تعلقات قائم کیے جائیں۔ ہم دونوں ہی نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں:

We are very close to understanding how new relations  should develop. We have both made mistakes in the past. (p. 6)          

چین اورروس نے جب دیکھا کہ ان کی باہمی دشمنی ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہی ہے تو دونوں نے طے کیا کہ وہ بے فائدہ دشمنی کو ختم کرکے آپس میں دوستانہ تعلقات قائم کر لیں۔ اس نئے فیصلہ تک پہنچنے کے لیے انہیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف اپنے مطالبات کو چھوڑ دینے پر راضی ہوئے۔ انہوں نے ایک ناقابل برداشت چیز کو برداشت کیا۔ تاکہ اپنے لیے زیادہ بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔ اسی کا نام حقیقت پسندی ہے۔ اس حقیقت پسندی کے بغیر موجودہ دنیا میں کامیابی تک پہنچنا ممکن نہیں۔

امریکہ اور روس اور چین موجودہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور قومیں ہیں۔ جب طاقت ور قوموں کا حال یہ ہے کہ حقیقت پسندی اور مفاہمت کے سوا ان کے لیے زندگی کاکوئی اور طریقہ نہیں ، تو کمزور قومیں کیوں کر ٹکرائو کی پالیسی اختیار کر کے زندہ رہ سکتی ہیں۔ ایسی حالت میں کمزور قوموں کے لیے حقیقت پسندی اور مفاہمت کا طریقہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جتنا طاقت ور قوموں کے لیے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom