بے دانشی
ایک شخص کا قول ہے کہ بیشتر حالات میں آدمی کے لیے سیکنڈبیسٹ (second best) ممکن ہوتا ہے، مگر وہ فرسٹ بیسٹ (First best) کو حاصل کرنے کی طرف دوڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ناممکن کو حاصل کرنے کی حرص میں ممکن کو بھی کھو دیتا ہے۔
ایک صاحب نے ایک عربی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ سے فراغت کے بعد وہ گائوں کی مسجد میں معمولی تنخواہ پر امام ہو گئے۔ اس کے بعدان کی ملاقات ایک بڑے ادارہ کے ناظم صاحب سے ہوئی۔ ناظم صاحب نے محسوس کیا کہ ان کے اندر صلاحیت ہے۔ چنانچہ انہوں نے ’’امام صاحب‘‘ کو اپنے یہاں بلا لیا۔ جلد ہی انہیں مزید ترقی ہوئی اور وہ ناظم صاحب کے اسسٹنٹ مقرر ہو گئے۔
اب ادارہ کے وسیع احاطہ میں ان کو رہائش کے لیے ایک صاف ستھرامکان مل گیا ۔ ایک جیپ ان کے استعمال میں رہنے لگی۔ معقول تنخواہ اور دوسری سہولتیں اس کے علاوہ تھیں۔ امام صاحب کو چاہیے تھاکہ وہ اللہ کا شکر کر کے اس پر قانع رہتے۔ مگر اسسٹنٹ کا عہدہ انہیں سکنڈبیسٹ نظر آیا۔ انہوں نے چاہا کہ میں فرسٹ بیسٹ حاصل کروں، یعنی خود ناظم صاحب کی سیٹ پر قبضہ کر لوں۔
چنانچہ انہوں نے ناظم کے خلاف مختلف قسم کے تخریبی منصوبے بنائے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ خلاصہ یہ کہ جب ناظم صاحب کو ان کے تخریبی منصوبوں کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے اثرات سے کام لے کر انہیں ادارہ سے نکلوا دیا۔ ان کا سامان باہر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ جیپ چھین لی گئی۔ مجبور ہو کر انہیں شہر چھوڑنا پڑا۔ اب وہ دوبارہ گائوں کی مسجد میں امام بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ مزید یہ کہ مذکورہ معاملہ کی وجہ سے ان کی جو بدنامی ہوئی، اس کے بعد کوئی ادارہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس دنیا میں کامیابی کا راز قناعت اور شکر گزاری ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ قول میں ’’سکنڈ بیسٹ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سیکنڈ بیسٹ پر قناعت کرنا اپنے کو پیچھے ڈالنا نہیں ہے۔ یہ دراصل قابل عمل سے آغاز کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو آدمی پہلے مرحلہ میں سیکنڈ بیسٹ پر راضی ہو جائے وہ بعدکے مرحلہ میں فرسٹ بیسٹ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص اس طرح راضی نہ ہو، وہ سیکنڈبیسٹ بھی کھو دیتا ہے اور فرسٹ بیسٹ بھی۔