خدمت کا کرشمہ
ریڈرز ڈائجسٹ(جون1989) میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے ایک ہندوستانی جرنلسٹ مسٹر اشوک مہا دیون ہیں۔ وہ ہندوستان سے کراچی گئے اور وہاں قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنی مفصل رپورٹ مرتب کی جو مذکورہ ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوئی ہے۔
یہ کراچی کے ایک شخص کی کہانی ہے۔ اس کا نام عبدالستار ایدھی ہے۔ اس نے اپنی 40 سالہ خدمات کے نتیجہ میں اپنے ماحول کے اندر غیر معمولی عزت اور گرویدگی حاصل کی ہے۔ مسٹر مہادیون کے الفاظ میں، کراچی کے مجرم لوگ بھی ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ کراچی کے مضافات میں پولیس اور ڈاکوئوں کے گروہ کے درمیان گولی چل رہی ہے۔ وہ فوراً ایک ایمبولنس لے کر مقام واردات کی طرف روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی وہ وہاںپہنچے، ڈاکوئوں نے ان کو دیکھ کر فائرنگ روک دی۔ ایدھی اس میں کامیاب ہوگئے کہ وہ ایک سب انسپکٹر کی لاش کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھ سکیں۔ ڈاکو اس دوران بے تابی کے ساتھ ایدھی کے جانے کا انتظار کرتے رہے اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں واپس جانے کے لیے کہتے رہے۔ جیسے ہی وہ وہاں سے روانہ ہوئے، ڈاکوئوں نے دوبارہ پولیس کے اوپر فائرنگ شروع کر دی:
Such feelings are shared even by Karachi`s criminals. Once, hearing that the police and a gang of dacoits were engaged in shoot-out in a city suhurb, Edhi drove to the scene in an ambulance. As soon as he arrived, the dacoits stopped firing, and Edhi was able to carry the body of a dead-inspector into his vehicle. The dacoits then impatiently waved Edhi away, and as he left, began shooting at the police again (pp. 116-17)
ایک شخص کو یہ درجہ کیسے ملا کہ اس کو دیکھ کر ڈاکو بھی اپنی بندوقیں نیچی کر لیں۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ اس کا نام عبدالستار ہے۔ اور نہ اس کا سبب احتجاج اور مطالبہ یا جلسہ اورتقریر کے ہنگامے تھے۔ اس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ انسانی خدمت ہے۔ عبدالستار نے اپنے 40 سالہ بے لوث خدمت سے یہ مقام پیدا کیا کہ ڈاکو بھی اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جائیں۔
عبدالستار ایدھی(عمر55 سال) ایک پاکستانی مہاجر ہیں۔1947 میں وہ گجرات کو چھوڑ کر کراچی چلے گئے۔ ابتداء ًانہوں نے کپڑے اور دوا کی دکان پر ملازمت کی۔ ان پر کئی ایسے تجربے گزرے جب کہ ایک مریض یا حادثہ کا شکار آدمی کو ہسپتال پہنچانے کے لیے فوری طور پر ایمبولنس کار کی ضرورت تھی۔ مگر وقت پر ایمبولنس نہ پہنچنے کی وجہ سے آدمی تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ ان کے دل میں آیا کہ وہ ایمبولنس سروس کا ایک رفاہی ادارہ قائم کریں گے۔
1950 میں انہوں نے عطیات کی رقم سے ایک سکینڈ ہینڈ ٹرک خریدا اور اس کو ایک معمولی قسم کے ایمبولنس میں تبدیل کرکے مریضوں اور زخمیوں کی خدمت شروع کی۔ یہ کام بڑھا۔ یہاں تک کہ اب ان کے پاس245 ایمبولنس کا دستہ ہے۔ وہ کراچی کے اندر اور کراچی کے باہر غریبوں اور معذوروں کی مفت خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کا سماجی خدمت کا ادارہ ہر روز ہزاروں پاکستانیوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایمبولنس کے دستہ کے علاوہ ان کے تحت زچہ خانے، بلڈ بینک، ایکسرے کلینک، لیبارٹری، نرسنگ سکول، یتیم خانے، معذور خانے وغیرہ چل رہے ہیں۔ انہوں نے ایتھیوپیا(53ہزار ڈالر) فلسطین(66 ہزار ڈالر) بنگلہ دیش(10ہزار ڈالر) اور اسی طرح بعض دوسرے ملکوں کے مصیبت زدگان کی خدمت کی ہے۔ اب وہ ائیر ایمبولنس سروس اور دوسرے بڑے بڑے ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً جدید طرز کاہسپتال، حیوانات کا ہسپتال، وغیرہ۔
ان کا سالانہ بجٹ تقریباً10 کروڑ روپیہ ہے۔ اور یہ سب عوامی چندوں سے حاصل ہوتا ہے۔ سابق صدر ضیاء الحق نے ایک بار انہیں پانچ لاکھ روپیہ کا چیک بھیجا۔ مگر عبدالستار ایدھی نے اس کو واپس کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام عوام کے لیے ہے اور عوام ہی کو اس کی قیمت دینا چاہیے۔ وہ نہایت سادہ طور پر دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ لوگوں کو ان کے اوپر اتنا زیادہ اعتماد ہے کہ بغیر طلب انہیں بڑی بڑی رقم دیتے رہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے جو رقم ان کو دی جائے گی وہ ضرور صحیح طور پر استعمال ہوگی۔
1986ء میں ان کو خدمت خلق (Public Service) کے لیے(Ramon Magsaysay Award) دیا گیا ہے۔ عبدالستار ایدھی اس سے پہلے ایک مقامی شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس انعام نے انھیں بین الاقوامی حیثیت دے دی۔ اس طرح وہ انسانی خدمت کی اس ممتاز فہرست میں آگئے جس میں اب تک صرف مدر ٹریسا کو شہرت حاصل تھی۔ اگرچہ مدرٹریسا کا کام بہت بڑا ہے۔ ان کو نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ تاہم عبدالستار ایدھی غالباً مسلمانوں میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس میدان میں نمایاں خدمت کا ایسا ثبوت دیا ہے کہ عالمی سطح پر ان کا اعتراف کیا گیا۔
اس طرح کا کام پیشہ ورانہ طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے خدا کی خلقت سے گہری شفقت کا تعلق ہونا ضروری ہے۔ اور یہ چیز مدرٹریسا اور عبدالستار ایدھی میں مشترک ہے۔ مدرٹریسا کا کہنا ہے کہ میں ہر انسان کے اندر خدا کو دیکھتی ہوں:
I see God in every human being.
یہی معاملہ عبدالستار ایدھی کا ہے۔ چنانچہ مسٹر اشوک مہادیون کے ایک سوال کے جواب میں عبدالستار ایدھی نے کہا کہ میں ان کے اندر خدا کو دیکھتا ہوں:
I see God in them. (p. 119)
خدمت کی برکت
انسان کی خدمت کا معاوضہ انسان کی محبت ہے۔ یہ اصول کسی ایک ملک کے لیے نہیں ہے، بلکہ ساری دنیا کے لیے ہے۔ جو لوگ انسانوں کی خدمت کریں، ان کو اس سے ایک طرف بے پناہ قلبی سکون ملتا ہے۔ اسی کے ساتھ دوسروں کے اندر انہیں عزت اور محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کے دوست بن جائیں۔ خطرناک ڈاکو بھی ان کو دیکھ کر اپنے ہتھیاروں کا استعمال ترک کر دیں۔