حکمت کی بات
کانگرس کے صدر نرسمہارائو (P. V. Narasimha Rao) کا ایک انٹرویو ٹائمس آف انڈیا (یکم جون 1991) میں چھپا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہندوستانی سماج مختلف قومیتوں کا مشترک سماج ہے، اور اس سماج کے ہر جزء کو آزادی اور برابری کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہندوستان میں رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ مل جل کر رہا جائے:
We have a plural society and all segments of the society should exist in freedom and equality. The only way to exist in India is to co-exist.
یہ نہایت صحیح اور درست بات ہے۔ مگر اس کا تعلق صرف ہندوستانی سماج سے نہیں ہے، بلکہ دنیا کے ہر سماج سے ہے۔ یہی طریقہ پاکستان اور افغانستان کے لیے بھی صحیح ہے اور یہی طریقہ یورپ اور امریکہ کے لیے بھی۔ چاہے ایک خاندان کا معاملہ ہو یا پوری زمین کا معاملہ، اس دنیا میں زندہ رہنے کی یہی واحد صورت ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ اگر برداشت اور رواداری (ٹالرنس) کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو اس زمین پرنہ ایک خاندان بن سکتا اور نہ ایک ملک۔
اس دنیا میں اختلاف کا موجود ہونا اتنا ہی فطری ہے جتنا خود انسان کا موجود ہونا۔ جہاں انسان ہوں گے وہاں اختلاف ہو گا، خواہ یہ انسان ایک مذہب اور کلچر کے ہوں یا کئی مذہب اورکلچر کے۔ ایسی حالت میں انسان کو دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے۔ یا تو وہ اختلاف کو برداشت کرے یا اختلاف کو برداشت نہ کر کے دوسروں سے ہمیشہ لڑتا جھگڑتا رہے۔
ہمارے لیے انتخاب کا موقع اختلاف اور بے اختلاف میں نہیں ہے بلکہ اختلاف کو برداشت کرنے یا اختلاف کو برداشت نہ کر کے مر جانے میں ہے۔ اگر ہم زندگی چاہتے ہیں تو وہ صرف اختلاف کو برداشت کرنے ہی میں مل سکتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا جو امکان ہے وہ لڑ کر اپنے کو برباد کر لینے کا ہے۔ اس کے سوا کسی تیسرے انتخاب کا ہمارے لیے موقع نہیں۔