زیادہ بڑا رزق
قرآن کی سورہ طٰہ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بتایا گیا ہے: وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى(20:131) یعنی تم ہر گز ان چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو جن کو ہم نے اُن کے کچھ گروہوں کو اُن کی آزمائش کے لیے اُنہیں دے رکھا ہے۔ اور تمہارے رب کا رزق زیادہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ زندگی کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی مادی دنیا کو اپنا نشانہ بنائے۔ وہ ملک و مال میں اپنی کامیابی تلاش کرے۔ ان چیزوں میں ہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہی مادّی چیزیں ہیںجن میں چھین جھپٹ کا معاملہ چلتا رہتا ہے۔ اس لیے جو لوگ مادیّات میں جیتے ہوں وہ یکسرحق تلفی یا محرومی کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔ یہ احساس بار بار حسد اور انتقام اور تشدد کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔
زندگی کی دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی یافت (achievement) کے احساس میں جیتا ہو۔ ایسا آدمی اپنے آپ میں مطمئن ہوگا۔ اُس کے اندر پانے کا احساس اُس کو اس سے بچائے گا کہ وہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے یا اُن کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائے۔
یافت کا یہ احساس کن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کے الفاظ میں ، رزق رب مل رہاہو۔ رزق رب سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو یہ یقین حاصل ہوکہ اُس نے سچائی کو پالیا ہے۔ اُس نے اس حقیقت کو دریافت کیاہو کہ خالق نے اُس کو جو وجود دیا ہے وہ سونے چاندی کے تمام ذخیروں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ اس طرح بیدار ذہن کے ساتھ دنیا میں رہے کہ پوری کائنات اُس کے لیے فکری اور روحانی خوراک کا دستر خوان بن جائے۔
جو آدمی دنیا سے اس طرح کا رزقِ رب پارہا ہو وہ اتنا زیادہ اوپر اُٹھ جاتا ہے کہ ملک و مال جیسی چیزیں اُس کے لیے حقیر بن جاتی ہیں۔ اُس کی یہ نفسیات اپنے آپ اُس کو امن پسند بنادیتی ہے۔ نفرت اور تشدد جیسی چیزیں اُس کو اتنا زیادہ بے معنٰی معلوم ہونے لگتی ہیں کہ اُس کے پاس اس کا وقت نہیں رہتا کہ وہ کسی کے خلاف نفرت کرے یا کسی کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائے—جس آدمی کو زیادہ بڑی چیز مل جائے وہ کبھی چھوٹی چیز کی طرف نہیں دوڑے گا۔