قوم اور قومیت
اس سلسلہ میں چند اسلامی اصطلاحیں ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ ان اصطلاحوں کا صحیح مفہوم مسلم اور غیر مسلم کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور ان اصطلاحوں کا غلط مفہوم برعکس طورپر دونوں کے درمیان دوری کا سبب بن جاتا ہے۔
ان میں سے ایک قومیت کا مسئلہ ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے غیر مومن مخاطبین کو اے میری قوم، (یا قومی) کے لفظ سے خطاب کیاہے۔ اس قرآنی بیان کے مطابق، مومن اور غیر مومن کی قومیت (nationality) ایک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیت کا تعلق مذہب سے نہیں ہے بلکہ وطن سے ہے۔ مذہبی اشتراک کو بتانے کے لیے ملّت کا لفظ بولا جائے گا اور وطنی اشتراک کو بتانے کے لیے قومیت کا لفظ۔ موجودہ زمانہ میں وطن (home land) کو قومیت کی بنیاد سمجھا جاتاہے۔ اسلام کا اصول بھی یہی ہے۔ اسلام کے مطابق، بھی وطن ہی قومیت کی بنیاد ہے۔
اس اعتبار سے دو قومی نظریہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے۔ دو قومی نظریہ مسلمانوں میں یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ ہم الگ قوم ہیں اور دوسرے لوگ الگ قوم۔ جب کہ صحیح اسلامی ذہن یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو دوسروں کا ہم قوم سمجھیں، وہ دوسروں کو اے میری قوم کے لوگو، کہہ کر خطاب کرسکیں، جیسا کہ تمام پیغمبروں نے کیا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اے لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور تم کو شعوب اور قبائل میں تقسیم کردیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (الحجرات، 49:13) ۔اس آیت میں شعب سے مراد وطنی اشتراک سے بننے والی قوم ہے اور قبیلہ سے مراد نسلی اشتراک سے بننے والا گروہ۔ قرآن کے مطابق، یہ دونوں قسم کی گروہ بندی صرف تعارف کے لیے ہے، وہ عقیدہ یا مذہب کے رشتہ کو بتانے کے لیے نہیں۔
1947 سے پہلے کے دور میں مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘۔ مولانا موصوف کا یہ بیان بجائے خوددرست تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اُس میں فی زمانہ (موجوہ زمانہ) کی شرط درست نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم ہمیشہ وطن ہی کی بنیاد پر تشکیل پاتی رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں صرف یہ ہوا ہے کہ دوسری بہت سی چیزوں کی طرح، اس معاملہ میں بھی تعین اور تشخص کے لیے جدید طریقے استعمال کیے گئے۔ مثلاً پاسپورٹ میں قومیت کا اندارج، جب کہ پہلے پاسپورٹ کا طریقہ رائج نہ تھا، بین اقوامی حقوق کے تعیّن کے لیے قومیت کی قانونی تعریف، ملک کی نسبت سے کسی قوم کے افراد کے حقوق کو قانون کی زبان میں متعین کرنا، وغیرہ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قوم کا لفظ موجودہ زمانہ میں بھی اصلاً اسی معنٰی میں بولا جاتا ہے جس معنٰی میں وہ قدیم زمانہ میں بولا جاتا تھا، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پہلے وہ مجمل مفہوم میں بولا جاتا تھا اور اب وہ مفصل مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
کچھ لوگ قومیت کی تشریح انتہا پسندانہ انداز میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ قومیت کو مذہب کے ہم معنٰی بنا دیتے ہیں، مگر یہ ایک نظریاتی انتہا پسندی ہے۔ اس قسم کی نظریاتی انتہا پسندی کی مثالیں خود مذہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانہ میں کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کی تشریح ایسے انتہا پسندانہ انداز میں کی کہ اسلام کے سوا ہر نظام طاغوتی نظام بن گیا۔ کسی مسلمان کے لیے اس طاغوتی نظام میں موافقت کرکے رہنا حرام قرار پاگیا۔ حتی کہ اس مفروضہ طاغوتی نظام میں تعلیم حاصل کرنا، سرکاری ملازمت کرنا، ووٹ دینا، نزاعات کے قانونی تصفیہ کے لیے ملکی عدالت سے رجوع کرنا، سب کا سب حرام قرار پاگیا۔
طاغوتی نظام کا یہ نظریہ بعض افراد کے انتہا پسندانہ ذہن کی پیداوار تھا، اُس کا خدا و رسول والے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حقائق نے اس نظریہ کے وابستگان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی عملی زندگی میں اس سے دست بردار ہوجائیں۔ چنانچہ اب یہ تمام لوگ بلا اعلان عملی طور پر اس انتہا پسندانہ نظریہ کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہی معاملہ قومیت کا بھی ہے۔ مغرب کے کچھ انتہا پسند مفکرین نے قومیت کو توسیع دے کر مکمل مذہب کے روپ میں پیش کیا۔ مگر حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر یہ نظریہ ٹوٹ کر ختم ہوگیا۔ اب عملی طور پر قومیت کا تصور تقریباً اسی فطری معنی میں بولا جاتا ہے جس فطری معنٰی میں وہ قرآن کے اندر استعمال ہوا تھا۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں اُٹھنے والے مسلم رہنما اس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ اُنہوں نے قومیت اور وطنیت کے معاملہ میں اس غیر فطری انتہا پسندی کو اصل سمجھ لیا اور اس بنا پر اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کی ایک مثال مشہور مسلم شاعر اقبال (وفات 1938) کی ہے۔ انہوں نے قومیت اور وطنیت کے اس انتہا پسندانہ وقتی تصور کو اصل سمجھ کر اُس کے بارے میں یہ اشعار کہے تھے:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اُس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قومیت اور وطنیت کے بارے میں یہ نظریہ بلاشبہ بے بنیاد ہے۔ عجیب بات ہے کہ اُس دور کے اکثر مسلم علماء اور دانشوروں نے سیاسی نوعیت کی چیزوں کو مذہب یا اسلام کے لیے موت و حیات کا مسئلہ سمجھ لیا۔ حالاں کہ کوئی بھی سیاسی اُتار چڑھاؤ مذہب اسلام کی ابدیت کے لیے چیلنج نہیں بن سکتا۔ مثلاً بیسویں صدی کے آغاز میں ترکی کی عثمانی سلطنت ٹوٹی تو شبلی نعمانی نے یہ شعر کہا:
زوال دولتِ عثماں زوالِ شرع و ملت ہے عزیز و فکرِ فرزند و عیال و خانماں کب تک
یہ تصور یقینی طورپر بے بنیاد ہے کہ کسی حکومت کا ٹوٹنا ’’شرع و ملّت‘‘ کے لیے زوال کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسا نہ کبھی ہوا اور نہ ایسا کبھی ہوسکتا ۔ دور اول میں خلافتِ راشدہ ٹوٹی مگر اسلام کی پُر امن توسیع مسلسل جاری رہی۔ اس کے بعد اموی سلطنت ٹوٹی تب بھی اسلام کا سفر بدستور جاری رہا، اس کے بعد عباسی سلطنت ٹوٹی، اندلس کی مسلم سلطنت ٹوٹی، مصر کی فاطمی سلطنت ٹوٹی، ہندستان کی مغل سلطنت ٹوٹی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر سلطنتوں کا یہ زوال اسلام کے زوال کا سبب نہ بن سکا۔
اسی طرح بیسویں صدی میں کئی انتہا پسندانہ نظریات اُبھرے۔ مثلاً کمیونزم، نازی ازم، نیشنلزم اور وطنیت، وغیرہ۔ مگر ان سب کا آخری انجام یہ ہوا کہ فطرت کا قانون اُن کے انتہا پسندانہ عناصر کو رد کرتا ہے اور آخر کار جو چیز بچی وہ وہی تھی جو قانونِ فطرت کے مطابق مطلوب تھی۔ فطرت کا ابدی قانون ہر دوسری چیز پر بالا ہے۔ فطرت کا قانون اپنے آپ یہ کرتا ہے کہ وہ غیر معتدل افکار کو رد کرکے اُنہیں میدانِ حیات سے ہٹا دیتا ہے اور اُن کے بجائے معتدل افکار کو کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔