فساد فی الارض نہیں
قرآن کی سورہ البقرۃ میں ایک کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ(2:11)۔ یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں جس کردار کا ذکر ہے اُس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایک اصلاحی مقصد کے لیے سرگرم ہوں، مگر اُن کا طریقہ درست نہ ہو۔ اُن کا طریقہ ایساہو جوعملاً فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں فساد سے مراد یہ ہے کہ اُن کے طریقہ کے نتیجے میں لوگوں میں باہمی ٹکراؤ پیدا ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ لوگوں کے اندر اخلاقی احساس کمزور ہوجائے۔ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوں۔ اس قسم کی تمام چیزیں فساد فی الأرض کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے سماجی امن ختم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لڑائی اور ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے۔
قرآن کی اس تعلیم سے معلوم ہوا کہ کسی عمل کے درست ہونے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ بظاہر وہ ایک اچھے مقصد کے لیے شروع کیا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ دیکھنا ہوگا کہ اصلاح کے نام پر کی جانے والی سرگرمیاں کس قسم کا نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ لوگوں کے درمیان نفرت اور تناؤ اورلڑائی جیسی چیزیں پیدا کریں تو بظاہر اصلاح کا نام لینے کے باوجود اُن کی سرگرمیاں مفسدانہ سرگرمیاں ہی کہی جائیں گی۔ ایسے لوگ انسانیت کے مجرم قرار پائیں گے ،نہ کہ انسانیت کے مصلح اور خادم۔
کوئی بھی اصلاحی کام صرف اُس وقت اصلاحی کام ہے جب کہ وہ امن او ر انسانیت کے دائرہ میں کیا جائے۔ اصلاح کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ کام غلط ہے جو سماجی امن کو درہم برہم کرے۔ جس کے نتیجہ میں جان اورمال کی تباہی ظہورمیں آئے۔ اصلاح کو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے بھی اصلاح ہونا چاہیے۔ جو اصلاح اپنے نتیجہ کے اعتبار سے فساد ہو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی فساد ہے، خواہ اُس کو کتنا ہی زیادہ خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو۔