ایک مغالطہ کی وضاحت
قرآن میں بعض آیتیں ایسی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے: اور ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ (2:191)۔ اس طرح کی آیتوں کو لے کر کچھ لوگ یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام جنگ اور قتال کا مذہب ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اس طرح کی آیتیں محدود طورپر صرف ان لوگوں سے متعلق ہیں جنہوں نے اہل اسلام پر یک طرفہ حملہ کر دیا ہو، وہ اسلام کا کوئی عمومی حکم نہیں۔
اصل یہ ہے کہ قرآن بیک وقت ایک مکمل کتاب کی صورت میں نہیں آیا، بلکہ وہ 23 سال کی مدت میں وقفہ وقفہ کے ساتھ حالات کے مطابق، نازل ہوا۔ 23 سال کی اس مدت کو اگر امن اور جنگ کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے تو تقریباً بیس سال کی مدت امن سے متعلق ہوگی اور تقریبًا تین سال کی مدت جنگ سے متعلق۔ جنگ یا قتال کی آیتیں مذکورہ تین سال کے دوران اتریں۔ ا ن کے علاوہ بیس سال کی مدت میں جو آیتیں اتریں وہ سب کی سب پُر امن تعلیمات سے تعلق رکھتی تھیں۔ مثلاً معرفت، عبادت، اخلاق، عدل، وغیرہ۔
احکام کی یہ تقسیم ایک فطری تقسیم ہے۔ وہ اس قسم کی ہر کتاب میں پائی جاتی ہے۔ مثال کے طورپرہندوازم کی مقدس کتاب گیتا کو لیجیے۔ گیتا میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو حکمت اور اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔اسی کے ساتھ گیتا میں یہ بھی ہے کہ کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں کہ اے ارجن، آگے بڑھ اور یُدھ (جنگ) کر۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گیتا کو ماننے والے بس ہر وقت جنگ کرتے رہیں۔ چنانچہ اسی گیتا سے مہاتما گاندھی نے اپنا اہنسا کا فلسفہ تشکیل دیا۔ کیوں کہ جنگ کی بات گیتا میں استثنائی طورپر حالتِ جنگ کے لیے ہے۔ عمومی زندگی کے لیے اس میں وہی پُر امن احکام بتائے گئے ہیں جو مہاتما گاندھی نے اس سے اخذ کیے۔
اسی طرح بائبل (نیا عہد نامہ) میں حضرت مسیح کی زبان سے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں (متّٰی، 10:34)۔ ان الفاظ کا یہ مطلب لینا درست نہ ہوگا کہ حضرت مسیح کا دین جنگ و قتال کا دین تھا۔ اس لیے کہ آپ کی تعلیمات میں اس طرح کے کلام کی حیثیت صرف استثنائی ہے اور کسی خاص موقع سے متعلق ہے۔ جہاں تک عمومی زندگی کا تعلق ہے، حضرت مسیح نے ہمیشہ اخلاق اور محبت جیسی پُر امن قدروں کی تعلیم دی۔
یہی معاملہ قرآن کا بھی ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس کے بعد مشرک قبائل نے آپ کے خلاف جارحانہ حملے کرنے شروع کر دیے۔ آپ ہمیشہ ان حملوں کو صبر و اعراض کی تدبیروں سے ٹالـتے رہے۔ تاہم بعض مواقع پر ایسا ہوا کہ جوابی مقابلہ کے سوا کوئی اور انتخاب (option) موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے آپ نے وقتی طورپر ان سے دفاعی جنگ کی۔ یہی وہ حالات تھے جن کے پیش آنے پر قرآن میں جنگ کے استثنائی احکام اترے۔ یہ احکام یقینی طورپر وقتی نوعیت کے تھے، نہ کہ ابدی نوعیت کے ۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر اسلام کی مستقل حیثیت کو رحمت للعالمین (21:107) سے تعبیر کیا گیا۔ یعنی سارے عالم کے لیے رحمت۔