امن مشترک سماج میں
بر صغیر ہند لمبی جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ یہ آزادی دو قومی نظریہ کے اصول پر ہوئی۔ تا ہم جو چیز تقسیم ہوئی وہ جغرافیہ تھا، نہ کہ قوم۔ یعنی انڈیا او رپاکستان کے نام پر دو ملک بن گئے مگردونوں قوم کے افراد دونوں حصوں میں بدستور آباد رہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال تھی۔ کیوںکہ قومی جھگڑے کو ختم کرنے کے نام پر ملک کو تو تقسیم کردیا گیا مگر قوم بدستور غیر منقسم رہی۔ اس طرح زمینی بٹوارہ کے باوجود نزاعی صورت حال بدستور قائم رہی، بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ۔ پہلے اگر وہ دو بے اقتدار قوموں کا جھگڑا تھا تو اب وہ دو بااقتدار ریاستوں کا جھگڑا بن گیا۔
اس مسئلہ کی نزاکت کو مہاتما گاندھی نے پہلے ہی دن محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ آزادی کے وقت اُنہوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ تاریخی الفاظ لکھے تھے— ہندو ؤںاور مسلمانوں کو امن اور ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ میں اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا:
Hindus and Musalmans should learn to live together with peace and harmony, otherwise I should die in the attempt.
سوئے اتفاق سے مہاتما گاندھی کو آزادی ہند کے جلد ہی بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ بلاشبہ بہت بڑا حادثہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امن و اتحاد قائم کرنے کا عمل اپنے پہلے ہی مرحلہ میں اپنے سب سے بڑے لیڈر سے محروم ہوگیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، آزادی کے ساتھ ہی خطّ تقسیم کے دونوں طرف فرقہ وارانہ تشدد ایک بھیانک عمل کی صورت میں شروع ہوگیا۔ تشدد کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ آخر کار اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس مسئلہ پر ایک نیشنل کانفرنس بلائی۔ اس کااجلاس نئی دہلی میں 28 ستمبر سے یکم اکتوبر 1961 تک جاری رہا۔ اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے ایک آرگنائزیشن (تنظیم) کی تشکیل کی گئی جس کا نام نیشنل انٹگریشن کونسل (قومی یکجہتی کونسل)تھا۔ اس کا مرکزی دفتر نئی دہلی میں قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ وہ قومی یکجہتی سے متعلق تمام مسائل کا جائزہ لے اور ضروری سفارشیں پیش کرے۔
اس کونسل کا اجلاس دوسری بار 2-3 جون 1962 کو نئی دہلی میں ہوا۔ شرکاء نے تقریریں کیں اور فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل کے لیے کئی تجویزیں پیش کیں۔ مگر ان تجویزوں پر کوئی عمل نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ دوبارکے بعد اس کونسل کاکوئی تیسرا اجلاس جواہر لال نہرو کی زندگی میں نہیں ہوا۔
اس کے بعد جب اندرا گاندھی ملک کی وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ نیشنل انٹگریشن کونسل کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اُنہوں نے 20-21 جون 1968 کو سری نگر میں تنظیم کا اجلاس بُلایا۔ یہاں تفصیلی بحثیں ہوئیں۔ آخر کار ایک مکمل لائحہ عمل ترتیب دیاگیا۔ اس کا ایک حصّہ یہ تھا:
فرقہ وارانہ سرگرمی کے معنٰی یہ قرار دیے جائیں کہ ہر وہ فعل جو مختلف مذہبی فرقوں، یا نسلی گروپوں یا ذاتوں یا برادریوں کے درمیان مذہب، نسل، ذات پات یا برادری کی بنیاد پر یا کسی بھی بنیاد پر دشمنی یا نفرت پھیلائے یا پھیلانے کی کوشش کرے۔ یہ جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہو اور اُس کے تحت سزا پانے والے کو عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت نااہل قرار دے دیاجائے۔ افواہ پھیلانا یا گھبرادینے والی خبریں اور افکار کی اشاعت کو دفعہ 153 (اے) کے تحت جرم قرار دے دیا جائے۔
کونسل کے جلسوں میں اس قسم کی بہت سی تجویزیں اتفاق رائے کے ساتھ پاس کی گئیں۔ اُس کے بعد اُس کی تائید میں بہت سے قانون اور ضابطے بنائے گئے۔ مگر عملاً ان کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے ملک کی حقیقی صورت حال اب بھی تقریباً وہی ہے جیسی کہ وہ 1947 میں تھی۔
اس ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس مسئلہ کو سادہ طورپر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھ لیاگیا۔ مگر اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ مسئلہ لااینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں۔ وہ ذہنی تعمیر یا شعوری بیداری کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کوایجوکیٹ کیا جائے۔ اُن کے اندر صحیح سوچ پیدا کی جائے۔ اُن کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھیں۔ وہ نتیجہ خیز عمل اور بے نتیجہ عمل کے درمیان تمیز کرنا جانیں۔ وہ یہ جانیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ عملی اقدام سے پہلے سوچنے کے مراحل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے۔ عمل کو سوچ کے تابع ہونا چاہیے، نہ کہ سوچ کو عمل کے تابع بنا دیا جائے۔
اس قسم کا باشعور سماج گویا کہ وہ زمین ہے جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فصل اُگائی جاسکتی ہے۔ قانون کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سماج کے استثنائی بگاڑکو جرّاحی جیسے عمل کے ذریعہ درست کیا جائے۔ کوئی بھی قانون سماج کی عمومی حالت کی اصلاح کے لیے نہیںہوتا۔ جرّاحی کا عمل جسم کی ایک جزئی بیماری کو شفا دینے کے لیے ہوتاہے۔ اگر پورا جسم عمومی طورپر مرض کا شکار ہوجائے تو ایسی حالت میں جرّاحی کے عمل کاکوئی فائدہ نہیں۔
یہاں میں اس مسئلہ کے چند بنیادی پہلوؤں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پہلو براہِ راست طورپر عوام کی ذہنی تشکیل کے سوال سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے حد ضروری ہے کہ ان سوالات کا واضح جواب ہمارے ذہن میں ہو تاکہ کسی کنفیوژن کے بغیر ذہنی تشکیل یا شعوری تعمیر کا کام عمل میں لایا جاسکے۔