کفر اور کافر کا تصور
اسی طرح اس معاملہ میں ایک متعلق اصطلاح کفر کی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں کفر اور کافر کا جوتصور پایا جاتا ہے وہ قومی یکجہتی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ مگر یہ خیال ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔
کفر کے لفظی معنٰی انکار کے ہوتے ہیں اور کافر کا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ یہ دونوں الفاظ قرآن میں پیغمبر کی نسبت سے بولے گئے ہیں، وہ عام لوگوں کی نسبت سے نہیں بولے گئے۔ مزید یہ کہ کفر یاکافر ایک شخصی کردار ہے۔ وہ کسی گروہ کا نسلی یا وراثتی نام نہیں۔ کفر یا انکار کا تحقق کسی کے بارے میں اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُس کے اوپر پیغمبرانہ قسم کی دعوت جاری کی جائے اور اُس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا جائے جس کو اتمامِ حجت کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی پیغمبرانہ دعوت کے بغیر کسی کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ اُس نے کفر یا انکار کا فعل کیا ہے۔
اسی طرح کسی فرد یا مجموعۂ افراد کے بارے میں متعین اور مشخص طورپر یہ اعلان کرناکہ وہ کافر ہوچکے ہیں، عام لوگوں کے لیے جائز نہیں۔ کفر کے فعل کاتعلق حقیقتاً نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے متعین اور مشخص طورپر کسی کے بارے میں یہ اعلان کرنا کہ وہ کافر ہوگیا ہے، یہ خالصتاً اللہ کا کام ہے یا اللہ کے دیے ہوئے علم کی بنا پر پیغمبر کا۔ چنانچہ قرآن میں صرف ایک ایسا حوالہ ہے جب کہ قدیم زمانہ کے کچھ لوگوں کو متعین طورپر کافر قرار دے کر کہا گیا کہ :قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ (109:1)۔ اس انداز کا مشخص خطاب قرآن میں کسی بھی دوسرے گروہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یعنی قرآن میں اس ایک استثنا کو چھوڑ کر فعل کفر کا ذکر تو ہے مگر مشخص طورپر کسی کو فاعلِ کفر کا درجہ نہیں دیا گیا۔