دیباچہ

زیر نظر کتاب، معروف معنوں میں  کوئی کتاب نہیں ہے۔ وہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ماہنامہ الرسالہ میں ، پچھلے برسوں میں ، امن اور اسلام کے موضوع پر جو مضامین چھپتے رہے ہیں اُن کو اس مجموعہ میں  اکھٹاکردیا گیا ہے۔ ان مضامین کا مقصد مشترک طورپر یہ ہے کہ امن اور جنگ کی نسبت سے اسلام کے بارے میں  غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور اس موضوع پر اسلام کے صحیح تصور کو واضح کیا جائے۔

اسلام مکمل طورپر ایک پُر امن مذہب ہے۔ اسلام میں  امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثنا (exception)کی ۔ یہ نادر استثنا ہمیشہ دوسروں کی طرف سے اضطراری طورپر پیش آتا ہے، نہ کہ خود اپنی طرف سے یک طرفہ اقدام کی صورت میں ۔

اسلام کا اصل مقصد انسان کی سوچ کو بدلنا ہے۔ انسان کے اندر توحید کی بنیاد پرایک ذہنی انقلاب لانا ہے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث میں  اس طرح بیان کیا گیا ہے: أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً،إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ(صحيح البخاري، حديث نمبر 52)۔ یعنی آگاہ کہ انسان کے جسم میں  گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ کہ یہ دل ہے۔

اس حدیث میں قلب سے مراد کیا ہے۔ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقل قلب کے اندر ہے (وَيُسْتَدَلُّ بِهِ عَلَى أَنَّ الْعَقْلَ فِي الْقَلْبِ) فتح الباری، جلد1، صفحہ129۔ مگر یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں  قلب سے مراد مرکزِ تفکیر نہیں ہے بلکہ مرکزِ دورانِ خون ہے۔ اس حدیث میں  قلب اور جسد کا ذکر بطو رتمثیل ہے۔ یعنی جس طرح جسمانی تندرستی کا انحصار قلب کی تندرستی پر ہے اسی طرح دینی زندگی کا قیام و بقا اس پر منحصر ہے کہ آدمی کے اندر زندہ ایمان موجود ہو۔

انسان کے اعمال کی درستگی ہمیشہ اُس کی فکر کی درستگی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام میں  سارا زور فکر صحیح کو زندہ کرنے پر دیا گیا ہے۔ ایسی حالت میں  جنگ اسلام کے ایجابی نقشۂ عمل سے خارج ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر حال میں  سارا زور فکر و شعور کی بیداری پر دیا جائے۔ انسانی نفسیات کے مطابق، سوچ سے عمل پیدا ہوتا ہے، مگر عمل سے سوچ نہیں پیدا ہوسکتی۔

حقیقت یہ ہے کہ جنگ اسلام کے نقشۂ اصلاح کو بگاڑنے والی ہے، جنگ اسلام کے نقشۂ اصلاح کو بنانے والی نہیں۔ خواہ اسلام ہو یا غیر اسلام، کسی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ جنگ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مثبت فائدہ حاصل کرسکے۔ اس لیے جنگ کو ٹالنے کی تمام کوششوں کے باوجود اگر اضطراری طورپر جنگ کی نوبت آجائے تو اہلِ اسلام کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ جلد سے جلد جنگ کا ماحول ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ امن کے ماحول میں  اسلام کا اصل مثبت کام جاری ہوسکے۔

جہاد کیا ہے۔جہاد پر امن جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ آج کل کی زبان میں  جہاد کو پیس فل ایکٹوزم (peaceful activism) کہاجا سکتا ہے۔ یعنی پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔

جہاد کے لفظی معنٰی کوشش یا جدوجہد کے ہیں۔ قرآن میں  یہ حکم دیا گیا ہے کہ خدا کی کتاب کے ذریعہ ان کے اوپر جہاد کبیر کرو (الفرقان، 25:52)۔ ایک حدیث میں  بتایا گیا ہے :الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ( مسند احمد، حديث نمبر 23967)۔ یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کے لیے اپنے نفس سے مقابلہ کرے ۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس آئے۔ یہ ایک مہم تھی جس میں  کوئی جنگ پیش نہیں آئی۔ واپسی کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں (رَجعْنَا من الْجِهَاد الْأَصْغَر إِلَى الْجِهَاد الْأَكْبَر)۔ ديكھيے، البيهقي، الزهد الكبير، حديث نمبر 373۔

جہاد تمام تر ایک پر امن عمل کا نام ہے۔ انفرادی اعتبار سے جہاد یہ ہے کہ آدمی نفس کی ترغیبات سے اور ماحول کی ناخوشگواریوں کے باوجود خدا کے پسندیدہ راستہ کو نہ چھوڑے۔ مخالفانہ اسباب کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو حق کی روش پر قائم رکھے۔ اجتماعی اعتبار سے جہاد کو پر امن جدوجہد کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی اسلامی مقصد کے لیے جب کوئی تحریک اٹھائی جائے تو اس کو مجاہدانہ انداز سے آگے بڑھایا جائے نہ کہ متشددانہ انداز سے۔ متشددانہ انداز میں  آدمی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں  مجاہدانہ انداز یہ ہے کہ ترغیب کے فطری طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کیا جائے۔

مجاہدانہ اسلوب میں  سب سے زیادہ اعتماد ذہنی بیداری پر کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے اندر صحت مند اسپرٹ جگائی جاتی ہے۔ تعمیری شعبوں میں  مثبت استحکام پر ابھارا جاتا ہے۔ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کے اندر اعلیٰ کردار پیدا ہو۔ لوگ دوسروں کے لیے نفع بخش بنیں۔ لوگوں کے اندر دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہو۔ جہاد کا ہتھیار محبت ہے، نہ کہ نفرت اور تشدد۔

حقیقت یہ ہے کہ جہاد کو قتال کے ہم معنٰی سمجھناجہاد کی تصغیر ہے۔ قتال ایک بے حد محدود اور وقتی عمل ہے۔ اس کے برعکس جہاد ایک مسلسل اور ہمہ گیر عمل ہے۔ جہاد اسلام کا ایک عظیم ترین عمل ہے جو انسان کی زندگی میں  ہردن اور ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں  موقوف نہیں ہوتا۔

آدمی کے اندر جب سچائی کی تلاش کا جذبہ اُبھرتا ہے تو وہ ایک فکری جہاد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ پھر جب اُس کو سچائی کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کی زندگی میں  جہاد مزید اضافہ کے ساتھ جاری ہوجاتا ہے۔ اب انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ نفس اور شیطان اور ماحول کے مقابلہ میں  جدوجہد کرتے ہوئے اپنے ایمان کو مسلسل بڑھائے۔ وہ اپنے اندر مثبت ذہنی عمل کو اس طرح جاری رکھے کہ اُس کی معرفت ہر لمحہ ترقی کرتی رہے۔ یہاں تک کہ وہ مقامِ اعلیٰ تک پہنچ جائے۔

حدیث میں  آیا ہے الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ(سنن ابن ماجه، حديث نمبر 74)۔ یعنی ایمان بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ ایمان کو نقص (erosion) سے بچانا ایک مسلسل جہاد کا طالب ہے۔ اجتماعی زندگی میں  رہتے ہوئے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے اوپر غصہ ، حسد، انتقام، غرور، ناشکری، حرص جیسے جذبات کا حملہ ہوتا ہے۔ یہ منفی جذبات انسان کے ایمان کو ضعیف یا ناقص کردینے والے ہیں۔ اُس وقت آدمی کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے داخلی احساسات سے لڑے اور اُن کو زیر کرکے ختم کرے۔ یہ ایک جہاد ہے اور اس جہاد کے بغیر کوئی شخص اپنے ایمان کو نقص یا ضیاع سے نہیں بچا سکتا۔

نئی دہلی،            25 مئی2004           وحید الدین

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom