اسلام اکیسویں صدی میں

پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ دور اوّل میں جو انقلاب آیا اُس کاایک پہلو وہ ہے جس کی تکمیل دور اول ہی میں ہوگئی۔ یعنی نزول قرآن کی تکمیل اوراسلامی طرز زندگی کا نظری اور عملی نمونہ دنیا میں قائم ہو جانا۔ یہ نمونہ قرآن اور حدیث اور سیرت اور احوالِ صحابہ کی صورت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔ وہ ابدی طورپر انسان کے لیے ربّانی طرز زندگی کا مستند نمونہ ہے۔

دور اول کے اسلامی انقلاب کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے تدریج کا طالب تھا۔ چنانچہ وہ لمبی مدت کے بعد اپنی تکمیل کو پہنچا۔ یہ دوسرا پہلو ایک مسلسل عمل (process) کے طورپر انسانی تاریخ میں داخل ہوا۔ یہ تاریخ میں ایک بے حد دور رس تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اُس کے لیے ہزار سالہ تغیراتی عمل درکار تھا۔چنانچہ یہ عمل مکہ اور مدینہ سے جاری ہو کر دمشق اور بغداد تک پہنچا۔ اس کے بعد وہ مزید آگے بڑھا۔ وہ اولاً یورپ (اندلس) میں داخل ہوا اور اُس کے بعد وہ ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مستقبل میں آنے والے اس انقلاب کا ذکر قرآن میں واضح طورپر موجود ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں چند آیتوں کے حوالے نقل کیے جاتے ہیں:

1۔  اور تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ (الأنفال، 8:39)

2۔  آج منکر تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پس تم اُن سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ، 5:3)

3۔  عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ (حٰم السجدہ، 41:53)

4۔  اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ (البقرہ، 2:286)

اسلامی انقلاب کے اس دوسرے پہلو کا خلاصہ یہ تھا کہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ اُس کے بعد اسلام پر عمل کرنا زمانۂ ماضی کے مقابلہ میں آسان ہوجائے۔ پچھلے دور کے اہل ایمان کو جو کام ’’عسر‘‘ کے حالات میں کرنا پڑتا تھا وہ اگلے دو ر کے اہل ایمان کے لیے ’’یُسر‘‘ کے حالات میں انجام دینا ممکن ہوجائے (الانشراح،94:5-6)۔ تیسیر کے اس عمل کے مختلف پہلو ہیں۔

اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں بادشاہت کے تحت سیاسی جبر کا نظام قائم تھا۔ اس نظام کے تحت انسان کو سوچنے یا عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ جب کہ آزادی کے بغیر نہ دینی احکام پر عمل کیا جاسکتا اور نہ دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے نہ صرف ابتدائی طورپر جبرکے اس نظام کو توڑا بلکہ تاریخ میں ایک نیا عمل (process)  جاری کیا۔ اس عمل کی تکمیل موجودہ زمانہ میں اس طرح ہوئی ہے کہ آج اہل ایمان کو دینی عمل اور دینی دعوت دونوں کی مکمل آزادی حاصل ہے، الاّ یہ کہ وہ خود اپنی کسی نادانی سے حالات کو مصنوعی طورپر اپنے مخالف بنا لیں۔

اس انقلاب کاایک اور پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹیکنیکل ترقی کے ذریعہ کمیونیکیشن کے جدید ذرائع حاصل ہوگئے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ حق کی دعوت کو تیزی کے ساتھ دنیا کے ہر حصہ میں پہنچایا جاسکے۔

اسی طرح موجودہ زمانہ میں سائنسی دریافتوں نے اس کو ممکن بنا دیا کہ کائنات میں چھپی ہوئی خداکی نشانیاں ظاہرہوں اور خدا کے دین کو خود علم انسانی کی روشنی میں مدلّل اور مبرہن کرسکے۔

بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ امن اورآزادی کی فضا میں بخوبی طورپر اللہ کے دین پر عمل کریں اور اللہ کے دین کو دوسری اقوام تک پہنچانے کا دعوتی فریضہ کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دیں۔ مگر عین اسی صدی میں مسلمانوں کے نا اہل رہنماؤں نے غلط رہنمائی کرکے اُنہیں ایسی سرگرمیوں میں الجھا دیا جس کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا تھا کہ اہل ایمان جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکیں، حتٰی کہ وہ اُن کے شعور سے بھی بے بہرہ ہوجائیں۔ یہ غلطیاں بنیادی طور پر دو قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔

ایک غلطی وہ ہے جو اسلام کی سیاسی تعبیر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ اس تعبیر نے غلط طور پر مسلمانوں کا یہ ذہن بنایا کہ وہ اسلام کے کامل پیرو صرف اُس وقت بن سکتے ہیں جب کہ وہ اسلام کے تمام قوانین کو عملاً نافذ کردیں۔ اس سیاسی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام اپنے حکمرانوں سے لڑ گئے، تاکہ اُن کو ہٹا کر وہ شریعت کا قانون نافذ کرسکیں۔ اس سیاسی بدعت کے نتیجہ میں کوئی خیر تو سامنے نہیںآیا البتہ مسلم دنیا میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں وہ جبر اور ظلم دوبارہ قائم ہوگیا جس کو لمبے تاریخی عمل کے نتیجہ میں ختم کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندوں سے اسلام کی کامل پیروی مطلوب ہے، نہ کہ اسلام کا کامل نفاذ۔

دوسری غلطی وہ ہے جو جہاد کے نام پر موجودہ زمانہ میں شروع کی گئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دوسری قوموں سے کچھ سیاسی اور مادّی شکایتیں تھیں۔ ان شکایتوں کو پُر امن طریقِ کار کے ذریعہ حل کیا جاسکتا تھا مگر پُر جوش رہنماؤں نے فوراً جہاد کے نام پر ہتھیار اُٹھالیے اور دوسری قوموں کے خلاف مسلّح لڑائی شروع کردی۔ اس خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں نہ صرف جدید امکانات ضائع ہوگئے بلکہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوئے، جیسی تباہی ماضی کی طویل تاریخ میں اُن کے ساتھ کبھی پیش نہیں آئی تھی۔

مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں مسلمان بیسویں صدی کو کھو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی ان غلطیوں کی اصلاح کریں گے یا موجودہ صدی کو بھی وہ اُسی طرح کھو دیں گے جس طرح وہ پچھلی صدی کو کھو چکے ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom