صلح حدیبیہ

صلح حدیبیہ کیا ہے۔ صلح حدیبیہ اسلام کی ابتدائی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جب یہ صلح ہوئی تو اس کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا(48:1)۔ یعنی یہ صلح تمہارے لیے فتح کی ایک یقینی ضمانت ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 ء میں شروع کیا۔آپ کا یہ مشن توحید کا مشن تھا۔ اُس وقت عرب میں بہت سے مشرک لوگ رہتے تھے۔ یہ لوگ آپ کے مشن کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ کے سخت مخالف بن گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ کئی سال تک لڑائی کا ماحول قائم رہا۔ لڑائی کے ماحول کی بنا پر دعوت اور تعمیر کا کام معتدل طورپر جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔

اس ناموافق ماحول کو ختم کرنے کے لیے پیغمبراسلام نے اپنے مخالفین سے صلح کی بات چیت شروع کردی۔ یہ بات چیت حدیبیہ کے مقام پر ہوئی۔وہ لوگ کڑی شرطیں پیش کرتے رہے۔ دو ہفتہ کی بات چیت کے بعد پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ اپنے مخالفین کی پیش کی ہوئی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مانتے ہوئے ان سے امن کا معاہدہ کر لیا اور اس طرح جنگ کی حالت کو موقوف کردیا۔ اور اپنے اور مخالفین کے درمیان امن کی حالت قائم کردی۔

اس معاہدہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل اسلام کو دعوت وتعمیر کے مواقع حاصل ہوگئے۔ چنانچہ مثبت تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہوگیا۔ اس کے بعد صرف دو سال کے اندر اسلام کو اتنا زیادہ استحکام حاصل ہوا کہ جلد ہی خون بہائے بغیر پورے عرب میں اسلام کا غلبہ قائم ہوگیا۔

صلح حدیبیہ کوئی منفرد قسم کا واقعہ نہیں، یہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کو ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی فرد یا قوم تنہانہیں ہے، بلکہ یہاں دوسرے بہت سے لوگ ہیں۔ ہر ایک کا انٹرسٹ الگ الگ ہے۔ اس بنا پر بار بار ایک اور دوسرے کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

ایسی حالت میں صرف دو ممکن صورتیں ہیں—مسائل سے ٹکراؤ شروع کر دینا یا مسائل سے اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا۔ پہلا طریقہ جنگ کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ صلح کا طریقہ۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَالصُّلْحُ خَیْر( 2:128)۔ یعنی صلح کا طریقہ زیادہ مفید ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قرآنی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صلح حدیبیہ کا معاملہ کیا جو اسلام کے لیے فاتحانہ صلح ثابت ہوئی۔

صلح یا ایڈجسٹمنٹ کا یہ طریقہ خود فطرت کا طریقہ ہے۔ مثال کے طورپر ایک بہتے ہوئے چشمہ کو لیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ چشمہ کے راستہ میں جب بھی کوئی پتھر آتا ہے تو وہ پتھر کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ پتھر کے کنارے سے راستہ نکال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک شخص سڑک پر اپنی گاڑی دوڑاتا ہے تو وہ سامنے کی طرف سے آنے والی گاڑی سے ٹکراؤ نہیں کرتا۔ وہ کنارے کی طرف مڑکر آگے بڑھ جاتا ہے۔

اسی مصالحانہ طریقہ کا نام حدیبیہ ہے۔ حدیبیہ کے طریقہ کو ایک لفظ میں اس طرح بیا ن کیا جاسکتا ہے— مسائل کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو استعمال کرو۔ یہ ایک ابدی اصول ہے جس کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ خاندان کا معاملہ ہو یا سماج کا معاملہ یا کوئی بین اقوامی معاملہ، ہر جگہ کامیاب زندگی کا یہی واحد اصول ہے۔ صلح حدیبیہ کا طریقہ چھوڑنے کا انجام صرف ٹکراؤ ہے اور ٹکراؤ سے کوئی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا۔ صلح حدیبیہ کا طریقہ اگر زندگی ہے تو ٹکراؤ اور جنگ کا طریقہ صرف موت۔

صلح حدیبیہ کا طریقہ موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ یہ طریقہ آدمی کو منفی سوچ سے ہٹا کر مثبت سوچ کی طرف لاتا ہے۔ وہ آدمی کو اس نقصان سے بچاتا ہے کہ وہ ٹکراؤ میں وقت ضائع کرتا رہے اور ممکن دائرہ میں موجود مواقع کو استعمال نہ کرسکے۔ صلح حدیبیہ کا طریقہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میں تبدیل کرلے۔ وہ اپنے مائنس کو پلس بنا سکے۔ وہ اپنے نہیں میں ہے کا راز دریافت کرلے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom